وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ 21 اور 22 جون کی درمیان شب 12.30 پر میرے ایک دوست کا فون آیا اور اْنہوں علامہ طالب جوہری کے سانحہ ارتحال کی المناک اطلاع دی۔ علامہ صاحب گزشتہ کئی دنوں سے شدید علالت کی وجہ سے آغا خان اسپتال میں زیر علاج تھے اور ڈاکٹرز کی ٹیم اْن کی صحت کے بارے میں نا اْمیدی کا بر ملا اظہار کر چکی تھی، لہٰذا وہی ہوا جو ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ علامہ صاحب کے انتقال سے پرمغز اور اعلیٰ پائے کی خطابت کا ایک باب، ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ علامہ صاحب کے والد مولانا محمد مصطفی جوہر اور میرے والد مولانا افضال رضا، قریبی دوست تھے اس ناچیز کو یہ شرف بھی حاصل رہا ہے کہ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں اس حقیر نے 1971 سے 1974 تک علامہ صاحب کے علمی لیکچرز سے مسلسل استفادہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب علامہ صاحب اسلامیات پر لیکچر دیتے تھے تو اْس میں معاشیات، اخلاقیات، نفسیات، تاریخ، فلسفہ اور بعض دیگر سماجی علوم اس طرح سْمو دیتے تھے کہ یہ علوم اسلامیات کا جزو معلوم ہوتے تھے۔ علامہ صاحب دقیق موْضوعات کو نہایت عام فہم انداز میں بیان کرنے میں ملکہ رکھتے تھے۔ اْن کے لیکچرز نہایت مُدّلل اور زبان و بیان کی تمام تر لطافتیں سمٹے ہوئے ہوتے تھے۔ اسلامیات جیسے سنجیدہ اور قدرے خشک موضوع پر دلچسپ پیرائے میں کلام اْنہی کا خاصہ تھا۔
علامہ صاحب نے غالباً 70 کے عشرے میں باقاعدہ مجالس عزا سے خطاب کرنے کا آغاز امام بارگاہ فاطمتہ الزہرا واقع لیاقت آباد نمبر دس سے کیا اور ابتدا ہی سے اْن کی فکری اور علمی مجالس نے سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیا، علامہ صاحب بحر علم کے وہ شناور اور غوّاص تھے جو علم کے جواہر سمیٹنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ طویل عرصے تک نشتر پارک میں محرم الحرام کی مرکزی مجالس سے خطاب کرتے رہے، اْن کی مجلس میں ہر مکتب فکر کے افراد شرکت کرتے تھے کیونکہ وہ کبھی کسی اختلافی یا نزاعی مسئلے کو اپنی مجلس میں زیر بحث نہیں لاتے تھے۔
علامہ صاحب مجتہد اعظم پاکستان، مولانا سید محمد محسن نقوی سے بہت قربت رکھتے تھے اور فقہی مسائل کے ضمن میں اْن سے ضرور مشاورت کرتے تھے ۔تقریباً چالیس سال قبل علامہ صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ مولانا محسن صاحب کے گھر ہفتے میں تین چار مرتبہ ضرور تشریف لاتے، ان مواقع پر علامہ صاحب اور مولانا محسن صاحب کے درمیان جو گفتگو ہوتی تھی وہ نا صرف نہایت فکر انگیز بلکہ انتہائی دلچسپ بھی ہوتی تھی کیونکہ حاضر جوابی، بزلہ سنجی اور تبحر علمی میں دونوں ہی بزرگ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ علامہ صاحب کم و بیش 47 برس تک میدان خطابت کے وہ شہسوار رہے جنہوں نے عوام و خواص بلکہ ہر طبقہ فکر سے اپنی علمی و استدلالی خطابت کا لوہا منوایا۔ علامہ صاحب اپنی مجالس میں جو نکات بیان فرماتے تھے اْن کا حوالہ قرآن مجید کی آیات اور مستند احادیث سے سامعین کے سامنے بیان کرتے تھے اور انتہائی دقیق مسائل کو نہایت آسان، عام فہم اور منطقی پیرائے میں اس طرح بیان کرتے کہ سامعین عش عش کر اْٹھتے۔ قرآن حکیم کی منطقی اور استدلالی تفسیر بیان کرنے میں اْنہیں اختصاص حاصل تھا۔ علامہ صاحب نے دس سال عراق میں تحصیل علم میں گزارے، علامہ صاحب نے خطایت کے ساتھ ساتھ قلمی میدان میں بھی اپنے علم کا سکہّ منوایا۔ تفسیر قرآن پر آپ کی کتاب احسن الحدیث کی دوجلدیں، واقعات کربلا کا احاطہ کرتی ہوئی کتاب حدیث کربلا، منطق و فلسفہ پر عقلیات معاصر، امام زمانہ کے موضوع پر علامات ظہور مہدی علم کلام پر علم کے موتی بکھیرتی کتاب خلفاء اثناعشر اور اصول معاشیات کے موضوع پر اسلامی معیشت کے رہنما اصول آپ کی تبحر علمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں علامہ صاحب نے شعر وادب پر جو سرمایہ چھوڑا اْن میں حرف نمو پس آفاق، اور شاخ صدا شامل ہیں۔ علامہ صاحب نے وجود باری تعالیٰ اور ہدایت کے موضوعات پر دو مرثیے بھی تحریر فرمائے جو اْن کی اعلیٰ علمی و فکری صلاحتیوں کے غماز ہیں اور مرثیہ گوئی پر اْن کی مضبوط گرفت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سلام و مناقب اور قصائد پر آپ کی کتاب ابھی زیر طبع ہے۔
علامہ طالب جوہری کے شعری افق اور شعریات علامہ طالب جوہری یہ دو کتابیں ان کی شعری و ادبی خدمات کے حوالے سے تصنیف کی گئی ہیں جن میں آپ کی شاعری کے مختلف پہلوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
قارئین کے اذہان سے 1980ء کے عشرے میں پیش کیا گیا پی ٹی وی کا دینی پروگرام فہم القرآن ابھی محوّ نہیں ہوا ہوگا، اس پروگرام میں مختلف مکاتب فکر کے علماء مختلف قرآنی آیات کو موضوع بنا کر خطاب کرتے تھے۔ اس پروگرام میں علامہ صاحب مشہور و معروف صحافی و سعت اللہ خاں کے الفاظ میں نہایت عام فہم اور ذود ہضم انداز میں قرآن کا پیغام سمجھاتے تھے بلاشبہ اس پروگرام کو بڑی پزیرائی حاصل ہوئی جس کی یا دیں آج بھی تازہ ہیں۔
علامہ صاحب کے سامنے زانو ادب تہہ کرنے والے باقاعدہ شاگردوں کی تعداد یوں تو سیکڑوں میں ہے جبکہ اْن کی نجی مجالس میں جن علماء نے اْن سے علمی و فکری استفادہ کیا اْن میں علامہ علی کراّر نقوی، مولانا سید شاکر حسین زیدی اور مولانا سیدّ خورشید عابد نقوی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں، اور اس مضمون کی تیاری کے سلسلے میں گرانقدر معلومات بہم پہنچانے پر راقم الحروف ان علماء کرام کا نہایت شکر گزار ہے۔ علامہ صاحب نے بیوہ، تین بیٹوں، دو بیٹیوں اور لاکھوں مداحوں اور سامعین کو سوگوار چھوڑا ہے۔ وہ ایک عرصے سے قلب اور ذیابیطس کے عوارض سے مقابلہ کر رہے تھے اور بالآخر یہی عوارض اْ ن کے سفر آخرت کا سبب بنے۔ اللہ رب العزت اْنہیں جوار سید الشہدا میں متمکن اور ممتاز فرمائے اور اْن کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین