کارگل کے شیر کی کہانی

443

ہماری زندگی میں بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں جب ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس کے جوانوں کو جان کے نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں۔ وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے جذبے سے سرشار یہ غازی مصائب و آلام اور کٹھن راستوں سے گھبراتے نہیں۔ بیسویں صدی، دنیا کی ہولناکیوں اور مصائب کی چشم دید گواہ تھی اس نے جنگ عظیم اول دیکھی، سلطنت عثمانیہ ختم ہوتے دیکھی، جنگ عظیم دوم کا نظارہ کیا۔ پاکستان بنتے دیکھا۔ عرب اسرائیل جنگ دیکھی۔ سرد جنگ دیکھی، میزائل کی دوڑ دیکھی اس صدی کے آخری سال میں جنوبی ایشیا کی برف پوش پہاڑیوں میں اس کو ایک اور معرکے کا مشاہدہ کرنا تھا۔ ابھی میدان جنگ نے دیکھنا تھا کہ ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘‘۔ ابھی وطن کے رکھوالوں کو آنے والی نسلوں کے لیے وفاؤں کے اور سبق لکھنے تھے۔ ابھی کچھ نام سنہری حروف سے لکھنا باقی تھے۔ چشم فلک کو کچھ نئے نظارے دیکھنے تھے، ابھی کچھ مومنوں کو رزمِ حق و باطل میں فولاد بننا تھا۔ ابھی اندلس کے میدان جنگ میں طارق بن زیاد کی دعا کے بقول دو عالم سے بیگانہ کرنے والی لذت سے آشنا جوانوں کو کلمہ حق کہنا تھا۔ ابھی لہو کو گرمانے والے کچھ ملی نغمے بننے رہ گئے تھے۔ ابھی کچھ عظیم ماؤں کے بیٹوں کو اپنے لہو سے وفا کی کہانیاں رقم کرنی تھیں، ابھی کچھ شہیدوں کے والدین کو نشان حیدر لے کر اپنے سر کو اور بلند کرنا تھا۔ ابھی علامہ اقبال کے کچھ شاہینوں کو سربکف ہوکر پہاڑوں کی ہیبت کو رائی ثابت کرنا تھا۔ ابھی سرخ پھولوں کو سہرے کے بجائے کفن کی شان بننا تھا۔
مجاہدوں کی چوٹی کی لسٹ میں کیپٹن کرنل شیر خان شہید کا نام آتا ہے۔ نام شیر اور لڑا ٹائیگر ہل پر، ڈر نام کی چیز اس کی ڈکشنری میں نہیں تھی۔ اسلام، پاکستان، اپنے والدین، علاقے، کورس (90۔ پی ایم اے لانگ کورس) اور یونٹ سب کا نام بلند کیا ان کی یونٹ میں حوالدار لالک جان شہید نے بھی نشان حیدر حاصل کیا۔ کارگل پر لکھی گئی کتاب ’’وٹنس ٹو بلنڈر-کارگل اسٹوری انفولڈز‘‘ کے مصنف کرنل (ر) اشفاق حسین لکھتے ہیں کہ ’’کرنل‘‘ لفظ شیر خان کے نام کا حصہ تھا اور وہ اسے بہت فخر سے استعمال کرتے تھے ان میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قوم کے اس بیٹے کا یوم شہادت ہر سال 5 جولائی کو منایا جاتا ہے۔
کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1999–1970ء) خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی کے ایک گاؤں کرنل شیر کلی (پرانا نام نواں کلی) میں پیدا ہوئے۔ صوابی کی زرخیز زمین میں جنم لینے والے اس افسر نے اپنے ملک وقوم کا وقار بلند کیا 1999ء میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر حاصل کیا۔ یہ بات کم ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی تعریف کرے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ فلاں فوجی کی بہادری قابل قدر ہے۔ حال ہی میں ایک انڈین مصنف ہرچنا بشٹ راوت کی کتاب۔ ’’کارگل ان ٹولڈ اسٹوریز فرام دی وار‘‘ کے مطابق کیپٹن کرنل شیر خان نے ایک بڑے دشمن کا مقابلہ انتہائی جرأت اور بہادری کے ساتھ کیا۔ دشمن کے کمانڈنگ آفیسر نے بھی ان کی بہادری کا اعتراف کیا تھا۔ جب کیپٹن شیر خان کا جسد خاکی واپس کیا گیا تو ان کی جیب میں انڈین بریگیڈئر نے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا: ’’12 این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بے جگری سے لڑے اور انہیں ان کا حق دیا جانا چاہیے‘‘۔ بی بی سی نے بھی ان کی بہادری پر ایک ڈاکومنٹری بنائی ان کے بھائی کے بقول وہ بہادر، نڈر، محنتی، بارعب شخصیت کا مالک اور سیر کرنے کا شوقین تھا۔ وہ مکمل طور پر اسلامی تعلیمات اور افکار پر عمل کرتے تھے۔ علاقے کے بچے بھی کیپٹن کرنل شیر خان کی طرح ملک کے دفاع کے لیے جذبہ شہادت سے سرشار ہیں۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے بڑے بھائی کی خواہش پر فیصل مسجد اسلام آبادکے بجائے انہیں ان کی والدہ کے پہلو میں صوابی میں دفن کیا گیا ان کی آخر ی آرام گاہ کے پاس ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنایا گیا ہے جہاں کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے زیر استعمال اشیاء رکھی گئی ہیں۔ ملک بھر سے کثیر تعداد میں لوگ وہاں دعا کے لیے آتے ہیں اور میوزیم کو دیکھ کر ان کے جذبے کو تقویت ملتی ہے۔ کیپٹن کرنل شیر خان پی ایم اے میں اپنے پلاٹون میٹس اور کورس میٹس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انہوں نے پی ایم اے میں بہترین اپونٹمنٹ حاصل کی۔ جونیرز کے ساتھ بہت شفیق تھے۔ جب وہ لیفٹیننٹ تھے اور کسی کو فون پر اپنا پورا نام ’’لیفٹیننٹ کرنل شیر خان‘‘ بتاتے تو دوسرا شخص انہیں کمانڈنگ آفیسر تصور کرتا۔ کیپٹن کرنل شیر خان کے دادا، اپنے علاقے کی ایک معزز شخصیت اور معتبر انسان تھے۔ انہوں نے کشمیر میں 1948ء کی مہم میں حصہ لیا تھا انہیں یونیفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انہوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔ کیپٹن کرنل شیر خان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ انہوں نے آخری وقت تک دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے پورے ملک میں ان کے نام پر کالج، اسپتال،چوک، ڈائننگ ہال، اسٹیڈیم، پارکوں کے نام دیے گئے ان کے نام سے ڈاک کے ٹکٹ جاری ہوئے، انہوں نے اپنے نام کی لاج رکھی۔