انسانی زندگی پر گناہ کے اثرات

201

اطہر وقار عظیم

آخر وہ کیا چیز تھی جس نے ہمارے جدامجد سیدنا آدم علیہ السلام کو راحت، خوشی اور مسرت کے ابدی مقام جنت سے رنج و غم اور مصیبت کے گھر (یعنی دنیا) میں لاڈالا؟ آخر وہ کون سا قدم تھا جسے اْٹھانے کے بعد، ابلیس کو آسمانی بادشاہت سے نکال پھینکا گیا اور راندہ درگاہ اور لعنت و ملامت کے قابل بنا دیا گیا۔ اس کے ظاہر وباطن کو مسخ کرڈالا گیا۔ وہ جنت میں تھا لیکن دہکتی ہوئی آگ اْس کا مقدر بنی۔ وہ جو تسبیح و تقدیس اور وحدانیت کے وظیفے کو حرزِجاں بنائے ہوئے تھا، اب کفروشرک، مکروفریب، دروغ گوئی اور فحاشی اْس کی فطرت ثانیہ بنی۔آخر کیا وجہ تھی کہ عاد کی قوم پر ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے اس قوم کے ایک ایک قدآور اور بلند وبالا فرد کو کھجور کے لمبے تنے کی طرح مْردہ اور بے حس و حرکت کر کے زمین پر ڈال دیا۔ ان کی آبادی، کھیت و کھلیان، چوپائے اور مویشی غرض ایک ایک چیز فنا کے گھاٹ اْتار دیے گئے۔ وہ کون سا جرم تھا جس کی پاداش میں ثمود کی قوم پر ایسی چیخ اور چنگھاڑ مسلط کی گئی جس کی تیز آواز نے ان کے دل، سینے اور پیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ اسی طرح وہ کیا غلیظ حرکات تھیں جن کے اصرار پر قوم لوط کی بستیوں کو اتنا اْونچا اْٹھایا گیا کہ آسمان کی بلندی پر قدسیوں نے ان بستیوں کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر اْس بستی کو اْلٹ کر انھیں اندھا کر دیا گیا۔ آسمان سے ان پر پتھروں کی مسلسل بارش ہوتی رہی، اور ایک ایک متنفس ہلاک کردیا گیا۔ وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے شعیب علیہ السلام کی قوم پر سائبان کی شکل میں بادلوں کا عذاب نازل کیا گیا۔ اَبر کی یہ چھتری جب ان کے اْوپر تن جاتی تو اس کے اندر سے آگ کے شعلے نمودار ہوتے اور دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہوتی۔ اسی طرح آخر وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو دریا میں ڈبو دیا، جس نے قارون کو اس کے گھربار اور اہل و عیال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کی پاداش میں بنی اسرائیل پر ان سے زیادہ سخت گیر قوموں کو مسلط کیا گیا۔ انھوں نے مردوں کو تہِ تیغ کیا، بچوں اور عورتوں کو غلام اور کنیز بنایا، گھربار کو آگ لگا دی اور مال و دولت کو لوٹ لیا۔ آخر کیوں ان مجرم قوموں پر طرح طرح کی سزاؤں کو نافذ کیا گیا، کبھی وہ موت کے گھاٹ اْتارے گئے، کبھی قید وبند میں مبتلا ہوئے۔ ان کے گھر اْجاڑے گئے اور بستیاں ویران کی گئیں، کبھی ظالم بادشاہ ان پر مسلط کیے گئے۔ کبھی ان کی صورتیں بندر اور سور کی بنا دی گئیں۔ بے شک وہ چیز، وہ جرم، وہ غلیظ حرکات اور عمل صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں اختیار کیے گئے گناہوں پر اصرار تھا۔ جس کے نتیجے میں ماضی میں لاتعداد افراد اور قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قاعدے کی وضاحت کی گئی ہے۔ سیدنا اْم سلمہؓ سے روایت ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: جب میری اْمت میں گناہوں کی کثرت ہوگی تو اللہ ان پر اپنا ہمہ گیر عذاب مسلط کرے گا۔ میں (اْم سلمہؓ) نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان دنوں ان کے اندر نیک لوگ نہیں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ میں نے عرض کیا تو ان کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ ہوگا؟ فرمایا: عام لوگوں کو جو مصیبت پہنچے گی وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ پھر انجامِ کار اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ان کا ٹھکانا ہوگی۔ (مسند احمد)
سیدنا حسن کی ایک مرسل روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: یہ اْمت اس وقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس اْمت کے امرا اپنے علما کی موافقت اور ان کی اعانت کریں گے۔ اْمت کے صالحین، فاسقوں اور فاجروں کو صالح اور نیک بنائیں گے اور اچھے لوگ، بْروں کی اہانت اور تذلیل نہیں کریں گے اور جب وہ غلط عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اْوپر سے اپنا ہاتھ اْٹھا لے گا۔ پھر ان کے اْوپر انھی میں سے سرکش لوگوں کو مسلط کرے گا، جو انھیں بدترین عذاب دیں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں فقروفاقہ میں مبتلا کرے گا۔سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ کے قریبی مہاجرین کی دس کی جماعت میں، مَیں دسواں آدمی تھا۔ (ہم بیٹھے تھے کہ) اتنے میں رسول اللہؐ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’پانچ قسم کی عادتوں سے میں اللہ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو تم اس کا شکار ہوجاؤ:
1۔ جو قوم کھلم کھلا بْرائی اور بے حیائی کرے گی، اللہ انھیں بھوک اور طاعون میں اس طرح مبتلا کرے گا کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس طرح مبتلا نہیں ہوا ہوگا۔
2۔ اور جو ناپ تول میں کمی کرے گا اللہ تعالیٰ انھیں قحط سالی، سخت محنت، مشقت اور ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کرے گا۔
3۔ اور جو قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دے گی، اللہ تعالیٰ انھیں بارش کے قطروں سے محروم کردے گا اور اگر ان کے مویشی نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند بھی ان پر نہ برستی۔
4۔ جو قوم عہدشکنی کرے گی اللہ ان پر اجنبیوں کو مسلط کرے گا جو ان سے ایک ایک چیز چھین لیں گے۔
5۔ اور جب کسی قوم کے حکمران اور امام، اللہ کی کتاب کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو اللہ انھیں آپس میں سخت لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلا کردے گا۔ (ابن ماجہ)
اللہ کے نافرمان، فاجر اور بدکار لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے نتائج کو یکساں ثابت کردیں۔ اچھے اور بْرے افراد میں تفریق اور تمیز ختم کردیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، وہ گناہ گاروں اور نیکوکاروں کے بارے میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ نیک اور بد دونوں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے مرنے کے بعد بھی یکساں سلوک کے مستحق ٹھہریں گے، حالانکہ یہ غیرعقلی، غیرسائنسی دعویٰ محض ان کے بے بنیادگمانوں پر مبنی ہے۔ کیونکہ اسلام کے مطابق مصیبت اور گناہوں کے انسانی جسم اور روح پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہوں کا بْرا اثر انسانی دل اور جسم پر یکساں پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرتِ گناہ کے نتیجے میں ہونے والے دنیا اور آخرت میں ہمہ گیر نقصانات کا اندازہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ (ماخوذ: الفوائد، ابن قیم)