الطاف جمیل ندوی
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپؐ کی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دے کر اہل اسلام کو آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، لہذا سیرت نبوی کو جانے بغیر آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتباع رسول اور اطاعت رسول کو لازم اور فرض قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے سیرت نبوی کا مطالعہ از حد ضروری ہے تاکہ آپ کے احکامات اور دیگر اوامر ونواہی کے ساتھ ساتھ آپ کی پسند وناپسند کے بارے میں مکمل جانکاری ملے۔
دین اسلام کی تبلیغ اور نشر واشاعت کے حوالے سے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے، تاکہ جہاں ایک جانب ہر مبلغ تبلیغ کے اس مسنون طریقہ کار سے آگاہ ہو جس پر عمل پیرا ہو کر آپؐ نے عرب کی کایا پلٹ دی اور دوسرا اس مطالعے کے ذریعے مخاطب کو آپؐ کے اسوہ حسنہ سے متعارف کروا کر اور موقع بہ موقع سیرت کے واقعات سنا کر اسے رسول اللہؐ کی سیرت کے بارے میں یہ بتا سکے کہ دنیا وآخرت کی کامیابی کا رازصرف اتباع سنت مین میں مضمر ہے۔ ایک بات ذہن نشین رہے کہ قرآن کا فہم مطالعہ سیرت کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ آپؐ ہی قرآن کی عملی تصویر اور کامل تفسیر ہیں۔
مسلمانوں کے لیے سیرت کا مطالعہ محض ایک علمی مشغلہ ہی نہیں بلکہ اہم دینی ضرورت ہے جبکہ غیر مسلموں کے لیے سیرت کے مطالعے کی نوعیت اس سے کچھ مختلف ہو سکتی ہے تاکہ انہیں اس بات کی جانکاری مل سکے کہ انہیں جس امن اور اطمینان قلب کی تلاش ہے، وہ انہیں صرف سیرت نبوی کے مطالعہ اور اس کے اتباع سے مل سکتی ہے۔ غیر مسلموں کا سیرت کے مطالعے سے ایک غیر مسلم پر یہ بات آشکارا ہوگی کہ رسول اللہؐ نے ایک قلیل عرصے میں دنیا میں ایک ایسا انقلاب کیوں کر برپا کر دیا اور عرب کی جاہل اور اجڑ قوم سے ایک ایسی کھیپ اور اْمت کیسے تیار کر دی کہ جس کے کارنامے تاریخ عالم کے ماتھے پر ایک جھومر کی طرح نمایاں نظررہے ہیں اور یہ سب کچھ مورخین عالم کے لیے انتہائی دلچسپ اور موجب صد حیرت بھی ہیں۔ وہ غیر مسلم جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف کسی وجہ یا لاعلمی یا غلط اطلاعات بہم پہنچانے کی وجہ سے بغض و عناد میں مبتلا ہیں، ان کے مطالعہ سیرت کا مقصد اصل حقائق سے آگاہی حاصل کر کے انہی واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور حقیقت کے برعکس ان واقعات کو اپنے رنگ میں پیش کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
مطالعہ سیرت کے نتیجے میں انسان اپنے سامنے انسانیت کاملہ کی ایک ایسی اعلیٰ مثال بچشم خود دیکھ سکتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں مکمل نظر آتی ہے، آپؐ کے انسانی زندگی کے جس پہلو اور جس گوشے کو بھی سامنے رکھ کر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال آپ کو سرور کائناتؐ کی زندگی میں نظر آئے گا اور یہی وجہ ہے کہ مغرب کے مشہور اسکالر مائکل ہارٹ نے جب دنیا کے سو عظیم انسانوں پر کتاب لکھی تو عیسائی ہونے کے باوجود اس نے اعلیٰ انسانی اقدار کے حوالے سے سب سے پہلے سرور کائناتؐ کا ذکر کیا۔
مطالعہ سیرت کے نتیجے میں اسلام کے بنیادی عقائد، احکام، اخلاق اور ہر اس چیز کی معرفت ہوتی ہے جس کی ایک مسلمان کو اپنی زندگی میں ضرورت ہے۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زندگی کو ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ انسان کی ہدایت ورہنمائی اور ملتوں اور قوموں کی اصلاح احوال اور تربیت کے لیے ایک داعی، مبلغ، مصلح اور رہنما کو دعوت وتبلیغ اور اصلاح وتربیت کے میدان میں جس جس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے اس کا ایک پورا نصاب سیرت میں موجود ہے، دعوت وتبلیغ چونکہ یہ منصب نبوت ورسالت کا حصہ ہے اس لیے اس میدان میں اس وقت تک کامیابی نہیں مل سکتی جب تک دعوت وتبلیغ منہاج نبوی کے مطابق نہ ہو۔ لہٰذا کامیاب تبلیغ ودعوت کے لیے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
سرورکائناتؐ کی حیات طیبہ نیک نمونہ عمل ہے، قرآن کریم نے اس کو مسلمانوں کے لیے ’’اسوہ حسنہ‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ لفظ اپنے معنی کی وسعتوں کے اعتبار سے انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے، اسے زندگی کے کسی ایک شعبے کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح لفظ ’’سیرت‘‘ بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے، بعض حلقوں میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سیرت یا مطالعہ سیرت کا صرف یہ مطلب ہے کہ نبی اکرمؐ کی حیات مبارکہ کو تاریخی تسلسل اور جغرافیائی پس منظر میں سمجھ لیا جائے، آپ کی ولادت کب ہوئی، کس طرح آپ کی پرورش ہوئی، پہلی وحی کب آئی، ابتدا میں کون کون لوگ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے، ہجرت کب ہوئی اور اس کے اسباب کیا تھے، کون سا غزوہ کس سن میں ہوا، اور اس کا نتیجہ کیا رہا، آپ کے بعض معجزات، آپ کی بعثت اور دعوت کے نتیجے میں دنیا میں کیا سیاسی، جغرافیائی اور معاشی انقلابات آئے وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے امور بھی ’’سیرت‘‘ کا حصہ ہیں مگر ’’سیرت‘‘ کے معنی اور مفہوم کی حدیں صرف یہیں آکر ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ سیرت کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ سیرت قرآنی تعلیمات کی عملی تصویر کا نام ہے، اسلامی عقائد، اسلامی اعمال، اسلامی اخلاق، فرد کا نظام حیات، معاشرے کے مسائل۔
آج مسلمانوں کی زندگی اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہے، ان کی معاشرت سے انسانی خصائل ختم ہو چکے ہیں، کوئی ایسا عیب نہیں جو ان کی فطرت ثانیہ نہ بن چکا ہو۔ کوئی ایسی برائی نہیں جس میں وہ مبتلا نہ ہوں اور ایسی اخلاقی خرابی نہیں جو ان کی قومی بنیادوں کو کمزور نہ کر رہی ہو۔ زعما اور رہنمایاں وقت خود ان کمزوریوں میں مبتلا ہیں کون ایسا رہبر ہے۔ جو ان کی عادات قبیحہ کے خوفناک نتائج سے واقف کرے۔
مسلمانوں کی ’’امت مسلمہ‘‘ کی جب تک اخلاقی حالت ٹھیک نہیں ہوگی تو وہ تجارت میں صنعت و حرفت میں کوئی ترقی نہیں کر سکتے۔ زراعت و کھیتی باڑی میں کماحقہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جو قوت وہ آج آپس کے لڑائی جھگڑوں اور خانہ جنگیوں میں صرف کر رہے ہیں، کاش اس قوت وطاقت کو اپنی اصلاح وہدایت میں لگاتے تو دنیا کا منظر کچھ مختلف ہوتا نہ کہ ایسا جسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔