حافظ عزیز احمد
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ آپؐ نے مجھ سے تین وعدے لیے: (1) وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں۔ (2) ہر مہینے کے تین روزے رکھو اور(3) نماز چاشت پڑھا کروں۔ (ترمذی)
امام ترمذیؒ اپنی سنن میں ابو ہریرہؓ کے حوالے سے یہ حدیث مبارک نقل کرتے ہیں۔ جس کا تعلق بلا واسطہ طور پر سیّدنا ابو ہریرہؓ کی ذات گرامی سے ہے۔ پورا عالم اسلام آپؓ کی شخصیت سے اچھی طرح واقف ہے۔ جماعت صحابہ میں آپ کا اس لحاظ سے ایک منفرد مقام ومرتبہ ہے کہ روایت حدیث میں تعداد کے اعتبار سے کوئی بھی آپ کے ہم پلہ نہیں۔
مسجد نبوی میں’’صفہ یونیورسٹی‘‘ کے ایک ممتاز اور حاضر باش طالب علم کی حیثیت سے آپ کا تعارف ہے۔
غزوئہ خیبر کے موقع پر آپؓ حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور پھر دینی تعلیم کے حصول کے لیے اپنے آپ کو اس طرح وقف کیا کہ رات دن ایک کر دیے۔ رسول رحمتؐ نے ایک موقع پر آپ کو قوت یاد داشت کے لیے دعا دی جس کی برکت سے جو بات بھی لب نبوت سے برآمد ہوئی، آپ نے سنی اور وہ اسی وقت یاد ہو گئی۔ اس طرح آپ نے پانچ ہزار تین سوچوہتر ارشادات نبوی کو یاد کرکے روایت کیا اور علمائے محدثین نے اپنی اپنی کتب کو ان احادیث سے مزین کیا ہے اور اس طرح علم کا بڑا ذخیرہ امت کو منتقل ہوا۔
حدیث کے اس منفرد اور ممتاز طالب علم نے فقر وفاقے کی پروا کیے بغیر اپنی ساری توانائیاں علم ربانی کے لیے وقف کردیں۔ ایسے مواقع بھی ان کی زندگی میں آئے کہ بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے مگر درسگاہ کو نہیں چھوڑا۔ اور ان کا سینہ مبارک متنوع تعلیمات نبوی کا خزانہ بن گیا۔ اور جب اس خزانے سے کوئی موتی سامعین کو دینا چاہتے تو انداز ایسا والہانہ ہوتا کہ سنا کیجیے اور دیکھا کیجیے۔
اپنے انداز کی اس پہلی یونیورسٹی کے معلم اول ختمی مرتبت سیدنا محمدؐ کو اپنے اس محنتی طالب علم سے بڑی محبت تھی۔ ایک موقع پر آپ نے جب انہیں مسجد میں پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا تو اْن کی زبان میں فرمایا: کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟ اٹھو نماز پڑھو، نماز میں شفا ہے۔ ڈھیروں دعائیں آپ کو دیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اے اللہ! میری امت کے دل میں ابو ہریرہؓ کی محبت ڈال دے۔
جس کا اثر یہ ہوا کہ جس نے بھی آپؓ کا نام سنا اس کا دل آپ کی محبت سے لبریز ہوگیا۔
قربت کے خاص لمحات میں آپؐ انہیں اہم ترین ہدایات فرماتے جنہیں وہ عموماً ’’اوصانی خلیلیؐ‘‘ کے الفاظ سے یاد کرتے۔ یعنی مجھے میرے خلیلؐ نے مجھ سے یہ فرمایا۔ مذکورہ حدیث بھی ایسے ہی لمحات کی ایک یادگار تصویر ہے جس میں خوبصورت الفاظ ہیں جو ’’اوصانی‘‘ سے زیادہ طاقتور اور تاکیدی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے مجھ سے یہ عہد لیا کہ میں یہ تین کام ضرور کر لیا کروں۔
(1)وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں (2) ہر مہینے کے تین روزے یعنی ایام بیض13، 14 اور 15 کے رکھ لیا کروں اور نمبر 3 یہ کہ چاشت کی نماز بھی روزانہ پڑھ لیا کروں۔ سبحان اللہ! کیا خوبصورت عہد وپیمان ہے۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ رسول رحمتؐ کو اپنے اصحاب اور طالب علموں کے حالات، ان کی ذہنی کیفیات اور جسمانی صلاحیتوں سے مکمل آگاہی ہے۔
اور آپ چاہتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک ان کے مطابق ہی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرے اور ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔چنانچہ آپؐ نے ابو ہریرہؓ کی علمی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے آپ سے پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی کہ نماز عشا کے بعد ہی نماز وتر پڑھ لیا کریں اور سو جائیں۔ نماز وتر ایک مستقل نماز ہے۔ نماز عشا کے ساتھ ہی اس کا وقت شروع ہو جاتا ہے جو صبح صادق تک رہتا ہے۔
مگر اس نماز کی ادائیگی کا بہترین وقت نماز تہجد کے بعد ہے۔ خود رسول اللہؐ نماز تہجد کے بعد ہی ادا فرماتے تھے۔ اور آج تک صلحائے امت کا یہی شعار ہے۔ مگر اپنے اس شاگرد کو آپؐ نے فرمایا کہ تم عشا کے ساتھ ہی یہ نماز پڑھ لیا کرو اور سوجایا کرو۔ یہ دراصل آپ کے ذہنی سکون کے لیے ہدایت فرمائی کہ ایک طالب علم کو اس کی ازحد ضرورت ہے۔
دوسرے، نفلی روزوں میں صرف ’’ایام بیض‘‘ کے روزوں کی ہدایت فرمائی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفلی عبادت کے شوق میں کثرت سے روزے رکھنا شروع کردیں اس لیے ہر ماہ صرف تین روزوں یعنی 13، 14 اور 15 تاریخ کی تلقین فرمائی۔ کیونکہ ایک طالب علم کو تعلیم کے حصول کے لیے وقت کو فارغ رکھنا چاہیے اور تیسرے یہ کہ روزانہ چاشت کی نماز پڑھ لیا کریں۔ نفل نماز کا سلسلہ تو طلوع آفتاب کے تھوڑی دیر بعد ہی نماز اشراق سے شروع ہو جاتاہے۔
اور وقت زوال کے علاوہ پورا دن ہی نفل نماز کا وقت ہے۔ اگر کوئی چاہے تو کسی بھی وقت نفل نماز ادا کر سکتا ہے۔ امت مرحومہ کے کچھ توفیق یافتہ لوگ سودو سو رکعات نفلی نماز روزانہ ادا کرتے رہے۔ مگر آپؐ نے اپنے اس پیارے شاگرد سے فرمایا کہ آپ روزانہ چاشت کی نفل نماز پڑھ لیا کریں۔ یہ نماز زوال سے قبل تک ادا کی جاسکتی ہے جو دو سے آٹھ رکعات پر مشتمل ہوتی ہے۔
بعض علما کا کہنا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے سیدہ ام ہانیؓ کے گھر میں غسل کے بعد جو آٹھ رکعات نماز ادا فرمائی تھی، وہ یہی نماز چاشت تھی احادیث مبارکہ میں اس نماز کی فضیلت موجود ہے جبکہ کچھ علما کی رائے یہ ہے کہ یہ آٹھ رکعات آپؐ نے فتح مکہ کے شکرانے کے طور پر ادا فرمائیں۔ بہر حال اس عہد یا ہدایت میں علم کے حصول سے متعلق تمام لوگوں کے لیے نہایت مفید اور کار آمد نصیحت اور لائحہ عمل موجود ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی عملی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین