تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں اس کے حامی اور طرف دار کچھ بھی کہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت بھان متی کا سوانگ ہے۔ آئے دن بھان متی کوئی نہ کوئی تماشا دکھاتی رہتی ہے۔ مگر تماشے سے پیٹ نہیں بھرتا اور دل بھرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اور یہ تماشا آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ قوم کو عمران خان سے بڑے تواقعات وابستہ تھیں مگر ان کی کارکردگی نے مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان کی حکومت بھان متی کا کنبہ ہے۔ اس کنبہ کا ہر فرد اپنی ڈفلی پر اپنا راگ الاپ رہا ہے اور ڈفلی کے شور میں عمران خان کی آواز گم ہوگئی ہے۔ آواز گم ہوجائے تو آدمی اپنی حیثیت کھو دیتا ہے۔ تو کیا۔۔۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی حیثیت کھو بیٹھے ہیں۔ وہ برائے نام وزیر اعظم ہیں حکومت کوئی اور ہی چلا رہا ہے۔ یہ گمان پٹرول کے معاملے میں یقین میں بدل گیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی ملک کا وزیر اعظم اتنا بے بس کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پٹرول مافیا کے اشاروں پر چلے بات صرف پٹرول مافیا تک ہی محدود نہیں اشیاء ضروریات عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں اگر حکومت کی کارکردگی کا یہی عالم رہا تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریر ہوجائے۔ پیمانہ لبریز ہوجائے تو عوام سٹرکوں پر آجاتے ہیں۔ احتجاج کا ایسا سونامی آتا ہے کہ سب کچھ بہہ جاتا ہے۔ عوام بے قابو ہوجائیں تو حکومت بے بس ہوجاتی ہے۔ پولیس رینجر اور فوج عوام کسی کی نہیں سنتے صرف سناتے ہیں۔ اور جب عوام کی آواز فوج کی سماعت کے جزیرے میں گونجتی ہے تو وہ بھی سٹرکوں پر اتر آتی ہے۔ فوج سٹرکوں پر اتر آئے تو بیرکوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ مگر اس بار ایسا ہونا مشکل امر ہے۔ عوام ہی سٹرکوں پر اتر کر وزیراعظم کو وزارت عظمیٰ کی مسند سے اتار دیں گے۔
نالائق اولاد کو تو والدین بھی عاق کردیتے ہیں۔ حکومت کی نالائقی کا یہ عالم ہے کہ بڑی دیدہ لیری سے اپنی نالائقی کو مدینے کی ریاست کہہ کر چھپانا چاہتی ہے۔ رسول پاک سے پوچھا گیا کہ کوئی مسلمان زانی ہوسکتا ہے آپؐ نے فرمایا ہوسکتا ہے۔ پھر پوچھا گیا کوئی مسلمان شرابی ہوسکتا ہے آپؐ نے فرمایا ہوسکتا ہے۔ پوچھنے والے نے پوچھا کوئی مسلمان چور ہوسکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہوسکتا ہے۔ تب آخری سوال کیا گیا کہ آپؐ کا کوئی امتی جھوٹا ہوسکتا ہے آپؐ نے فرمایا میرا امتی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ اس پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمان میں ہر عیب ہوسکتا ہے مگر وہ جھوٹ کی لعنت سے دور رہتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کا ہر رکن جھوٹ بولنے کا ماہر ہے۔ لگتا ہے کہ انہوں نے جھوٹ بولنے کی مہارت حاصل کرنے کے لیے پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔ اس کا بہتر جواب تو شیخ رشید ہی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ موصوف ہی نے یہ انکشاف کیا تھا کہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سیاست کی یونیورسٹی ہیں۔ سیاست سیکھنا ہے تو اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنا پڑے گا۔ یقینا ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جھوٹ پر مہارت حاصل کرنے کے لیے کس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا جائے۔ کیونکہ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح جھوٹ کو بھی جھوٹ ہی کاٹ سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جب ان کے جھوٹ سے پردہ ہٹایا جائے تو غرا کر کہتے ہیں کاٹ ڈالو ں گا۔ خدا جانے کس چیز سے کاٹ ڈالیں گے کیونکہ اگر یہ کہا جاتا کہ کاٹ لوں گا تو بات واضح ہوجاتی کہ کس طرح کاٹیں گے۔ مگر کاٹ ڈالوں گا فلمی ڈائیلاگ لگتا ہے۔ فلم کا کیا ہے۔۔۔؟ اس میں تو ویلن ایڑی مار کر دھرتی بھی ہلا سکتا ہے حالات و واقعات یہی بتا رہے ہیں کہ حکومت شوٹینگ کر رہی ہے۔