جابر بن حیان، دنیا کا پہلا کیمیا دان

502

یہ جابر بن حیان ہی تھے جن کی محنت اور کوششوں سے ہی علم کیمیا کو وہ ترقی اور اعزاز و مقام ملا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔

جابر بن حیان کا تعلق عرب کے جنوبی حصے کے ایک قبیلے ازد سے تھا۔ ان کے خاندان کے لوگ کوفے میں آباد ہو گئے تھے۔ لیکن جابر 722ء میں خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوئے کیونکہ ان کے والد حیان کوفے سے یہاں آگئے تھے۔

جابر نے طوس میں ہی تعلیم پائی۔ دینی تعلیم کے علاوہ انہوں نے ریاضی اور دوسرے علوم کا مطالعہ بھی کیا۔ جب وہ جوان ہوئے تو اپنے قبیلے کو چھوڑ کر مدینہ منورہ میں آگئے۔ یہاں انہوں نے امام جعفر صادقؓ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ امام جعفر صادقؓ نہایت عالم اور باکمال امام تھے۔ ان ہی کی صحبت کا اثر تھا کہ جابر اگرچہ بعد میں سائنس دان بنے لیکن ان پر مذہب کا رنگ بھی غالب رہا۔ مدینہ منورہ سے جابر کوفہ آئے اور یہاں انہوں نے اپنی تجربہ گاہ قائم کی اور کیمیا پر تحقیقات کیں جن کی بنا پر وہ دنیا کا پہلا کیمیا دان کہلائے۔ جابر نے بچپن ہی سے بہت محنت کی اور برابر شعبہ کیمیا میں تجربات کرتے رہے۔ انہوں نے یونانی علم کو عربی زبان میں پیش کیا اور پرانے علوم سے فائدہ اٹھایا۔ 786ء میں جابر عمررسیدہ تھا تو مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید بغداد میں تخت سلطنت پر بیٹھا۔ وہ پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی قدر کرتا تھا۔ اس کے وزیر بھی بڑے لائق تھے اور علم کی قدر کرتے تھے۔ انہوں نے جابر کی شہرت سنی تو اسے بغداد بلا لیا لیکن کچھ عرصہ بعد جابر پھر کوفے واپس آ گیا۔

جابر بن حیان کے زمانے میں اس علم کیمیا کا مطلب یہ تھا کہ معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے۔ کسی کو اس میں کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن کوشش سب کرتے تھے مگر جابر بن حیان نے اپنا وقت صرف اس خیال پر ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے تجرباتی کیمیا پر زور دیا۔ وہ بہت سے تجربات سے واقف تھے جو آج بھی رائج ہیں، مثلاً حل کرنا، کشیدکرنا، فلٹر کرنا، اشیا کا جوہر اڑانا اور مختلف چیزوں کی قلمیں بنانا۔ سچ تو یہ ہے کہ جابرتجرباتی کیمیا کے بانی ہیں۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں،

’’کیمیا میں سب سے ضروری چیز تجربہ ہے ۔ جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔ پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربے پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔ کسی کیمیا دان کی قابلیت کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ اس نے کیا کیا پڑھا ہے بلکہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے تجربے کے ذریعے کیا کچھ ثابت کیا ہے۔‘‘

جابر بن حیان نے اپنی تحقیقات سے علم کیمیا کو ایک نیا روپ دیا اور اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب کے ایک بدوی قبیلے کا ایک بچہ جو بالکل چھوٹی عمر میں ہی یتیم ہو گیا تھا، کس طرح اس مرتبے تک پہنچا کہ کیمیا کی تاریخ اسے فراموش نہیں کر سکتی۔ مغرب نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ آج یورپ میں اسے Jeber کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا کے اس عظیم سائنس دان نے 95 سال کی عمر میں 817ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کیا اور خالقِ حقیقی سے جا ملا۔