سرمایہ دارانہ نظام کا بحران

662

سرمایہ دارانہ نظام شاید ایک دائمی بحرانی دور میں داخل ہوگیا ہے۔ اس دائمی بحران کا سطحی اظہار معاشی اضمحلال اور سود اور سٹہ کی مارکیٹیوں کے بڑھتے ہوئے خلفشار سے ہوتا ہے لیکن اس کا ایک بنیادی سبب سائنس کا عالمی غلبہ ہے۔ سائنس انسان کو تسخیر کائنات کے گر سکھاتی ہے۔ تسخیر کائنات کا عمل منطقی طور پر لازماً انسانیت کی تباہی پر منتج ہوتا ہے، انسان کائنات کا حصہ ہے، اس کا خالق نہیں، تسخیر کائنات کی احمقانہ جستجو انسانی وجود کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی جدوجہد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
دور حاضر میں سائنس نے انسانیت کی تباہی کے لیے تین مہلک ترین ہتھیار ایجاد کیے ہیں ان میں سے ایک ادویاتی اور کیمیائی اختراعات کا ، چونکہ کیمیائی اور ادویاتی اختراعات دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں جاری ہیں لہٰذا نئی نئی وباؤں کے پھوٹنے کے امکانات روز بہ روز بڑھتے جارہے ہیں۔
دوسرا ہتھیار Bio geo engineering ہے۔ سائنس کے پیدا کردہ ماحولیاتی بحران سے نبٹنے کے لیے کائناتی نظام میں ایسے تغیرات مستقل جاری ہیں جن سے ماحولیاتی ابتری میں ہنوز اضافہ ہورہا ہے، اور آلودگی، خشک سالی، سیلاب، آبی وسائل کی کثافت اور نسلی اقسام کی کمی extinction of biodiversity میں اتنی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کہ خود سائنس دانوں کے اپنے تخمینوں کے مطابق سو سال کے اندر اندر دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔
تیسرا ہتھیار آئی ٹی کا عالمگیر تسلط ہے اطلاعات کی کاروباریت commodification نے ارتکاز سرمایہ کے عمل میں ہوشربا اضافہ کردیا ہے۔ آج Facebook, Google, Apple کے حصص آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ جب تک دنیا کی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے جب موصلاتی اجارہ داری مستحکم ہو تو یہ کہنا ناممکن ہوجاتا ہے کہ سچ کیاہے جھوٹ کیا ہے۔ شخصی آزادی اور خود مختاری (سرمایہ داری کے کلیدی عقائد) کے کوئی معنی نہیں رہتے، کیونکہ ہرفرد کے بارے میں مکمل معلومات clouds میں محفوظ ہوجاتی ہیں اور ہرفرد وہ رائے رکھتا ہے جو اطلاعات کے اجارہ دار اس پر مسلط کرتے ہیں اور ان آزاد انسانوں کا کسی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس میں شک نہیں کہ: ’’ہے نزع کے عالم میں یہ تہذیب جو اں مرگ‘‘
لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ: ’’ابلیس کے تعویز سے کچھ اور سنبھل جائے‘‘
بہر کیف ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ سرمایہ داری ایک بحرانی دور سے گزر رہی ہے اور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ بحرانی ادوار انقلابات کے لیے نہایت ساز گار ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن انقلاب اس وقت ممکن ہے جب ہم اس حکمت عملی میں خاطر خواہ تبدیلی لائیں جو ہم نے سرمایہ داری کے دور میں زریں (1950-1973) میں وضع کی تھی۔
سب سے اہم ضرورت مخلصین دین کی مذہبی صف بندیوں سے قریب ترین اشتراک عمل کا ہے۔ اسلامی روحانیت کا عوامی پھیلاؤ وہ ناگزیر بنیاد ہے جس کی بنا پر عوام کو ان کٹھن حالات میں انقلابی سطح کی مہم کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ یہ بحران انتظامی ہے، طرز ی نہیں۔ سرمایہ دارانہ طرز زندگی اس سے بہت کم متاثر ہورہا ہے۔ لوگوں کی اقدار وخواہشات اور میلانات تبدیل نہیںہورہے۔ ہمیں اس تغیر کے تناظر میں طرزی تبدیلی کی جدوجہد کرنی ہے۔ برصغیر میں صوفیائے کرام کی مساعی جلیلہ کے نتیجے میں روحانی بیداری پیدا ہوئی تھی اور صوفیا طرائق کی تطہیر اور پاکباز مقدس صوفیا کرام کے اردگرد عوام کو پیری مریدی کے نظام کے تحت جمع کرنا انقلاب اسلامی کی اہم ترین ضرورت ہے۔
برصغیر کی صوفیا (بالخصوص قادریہ اور چشتیہ) سلسلوں کی ایک اہم کمزوری نظام ریاست سے ان کی دوری رہی ہے۔ صوفی بزرگوں نے ریاستی ذمے داریاں تقریباً کلیتاً سلاطین اسلام کو تفویض فرمائی تھیں۔ لیکن آج کے دور میں سلطان تو ہے نہیں اور
’’جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست‘‘ لہٰذا مذہبی حلقوں میں اس بات کا احساس دلانا کہ ریاستی کارفرمائی معاشرتی ابتری کا بنیادی محرک ہے انقلابی حکمت عملی کی دوسری ضرورت ہے۔ جیسے جیسے نظاماتی بحران وسیع ہوگا ویسے ویسے ریاستی ڈھانچہ شکست دریخت کا شکار ہوگا۔ اسلامی انقلابیوں کو مسجد، مدرسہ، خانقاہ اور برادری کی سطح کا ایک ایسا متبادل نظام اقتدار مرتب کرنے کا موقع ملے گا جو عوام کے بڑھتے ہوئے روز مرہ کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بحران کے پھیلاؤ سے جو سب سے زیادہ متاثر ہوں گے وہ چھوٹے دکاندار، ٹھیلے والے اور دہاڑی پر کام کرنے والے مزدور ہوں گے۔ یہ مخلصین دین کا سب سے غیر منظم گروہ ہے لیکن ان میں صوفیا کا اثر وافر ہے اور پیری مریدی کا نظام وہ فطری تاریخی ورثہ ہے جس سے یہ گروہ منظم کیے جاتے رہے ہیں۔
عوام کو مخلصین دین کی قیادت میں منظم اور متحرک کرنے کا پہلا اظہار ایک عظیم الشان اسلامی اتحاد ہے جس میں بیش تر اسلامی سیاسی اور مذہبی جماعتیں شریک ہوں اور جو خالصتاً اسلامی ایجنڈے کی بنیاد پر 2024 کے ملک گیر انتخابات کو لڑیں اس اتحاد کو کم از کم ایک کروڑ ووٹ حاصل ہوں اس کے نمائندگان پارلیمان میں مسجد اور مدرسہ کی بنیاد پر کی گئی تنظیم سازی کی حفاظت اور اس کے دائرہ کار میں توسیع کی وکالت کریں اور نظام میں دہریہ ریاستی کارروائی (عدالتی ہو غیر دستوری) کو ناممکن بنا دیں۔
انقلابی حکمت عملی کا تیسرا ہدف پاکستان کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے جس حد تک بھی ممکن ہو منقطع کرنا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس سال عالمی شرح نمو (GDP growth rate) منفی رہے گی اس نظام سے منسلک رہنا خود کشی کے مترادف ہے اور آئی ایم ایف ہمیں اس خود کشی پر مجبو ر کررہا ہے۔ عمران خان کی دہریہ سامراج نواز حکومت 2019 میں کیے گئے IMF کے معاہدے کی توسیع کرکے اپنی معاشی پسپائی کا اعلان کردے گی۔ ہمیں اس چیزکو اپنے پارلیمانی نمائندگان کے ذریعہ یقینی بنانا ہے کہ 2023 کے بعد بین الاقوامی سودی قرضہ لینا کسی پاکستانی حکومت کے لیے ممکن نہ ہو۔
سرمایہ دارانہ بحران طویل المدت نوعیت کا ہے اور پاکستان جیسے چھوٹے سے ملک میں اس بحران کو مہمیز دینے کی صلاحیت بھی نہایت محدود ہے اس کے باوجود اگر اسلامی انقلابی قوتیں عوامی مذہبی تحرک اور تنظیم اور مخلصین دین کے اقتدار کے قیام کا بیڑہ اٹھالیں تو سرمایہ دارانہ غلبہ کو کسی نہ کسی حد تک چیلنج کیا جاسکتا ہے۔