ایک وقت تھا کہ پاکستان کے مسلمانوں میں دین کے بارے میں حسّاسیت زیادہ تھی، تمام تر عملی کوتاہیوں کے باوجود دین اور دینی مقدّسات کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتے تھے، فوراً توانا ردِّعمل آتا اور ایسی مذموم حرکات شروع ہی میں دم توڑ دیتیں۔ مُلحدین اور دین بیزار طبقات ہر دور میں رہے ہیں، ماضی میں جب وہ دین کے بارے میں اپنی نفرت کا اظہار کرتے تو کسی مولوی کو نشانہ بناتے، کبھی مسجد اور مدرسے کو ہدف بناتے، الغرض ڈائریکٹ اٹیک کی جسارت نہیں کرپاتے تھے۔ لیکن جب سے پرائیویٹ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کی مختلف صورتیں وجود میں آئی ہیں، قرآن، رسول، اسلام اور مقدّساتِ دین پر براہِ راست حملے کیے جارہے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ اگر نمایاں دفاعی شخصیات یا حسّاس اداروں سے وابستہ شخصیات پر سوشل میڈیا میں کوئی انگلی اٹھائے، نازیبا بات کرے تو اُسے تلاش کر کے عبرت ناک انجام سے دوچار کردیا جاتا ہے، لیکن اب اس وطنِ عزیز کے ریاستی وحکومتی نظم میں دینی مقدّسات کا دفاع اور تحفظ کرنے والاکوئی نہیں ہے۔
مشروبِ خاص، جسے عربی میں ’’بنتِ عِنَب‘‘، فارسی میں ’’ دُختِ رَز‘‘ اور اردو میں ’’انگور کی بیٹی‘‘ کہا جاتا ہے، کی ترغیب وتشویق اخباروں کے ادارتی صفحات میں آئے دن دی جاتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب حلال وحرام اور دینی اخلاقیات کے اعتبار سے اخباروں کی کوئی پالیسی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم سے نفرت کا بھی برملا اظہار کیا جارہا ہے۔ گورنر پنجاب نے یہ اعلان کیا: ’’قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھے بغیر یونیورسٹیوں سے ڈگری نہیں ملے گی‘‘، حالانکہ تاحال یہ محض اعلان ہے، اس کے پیچھے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں ہے، لیکن اردو اور انگریزی اخبارات میں بعض کالم نگاروں نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ لوگ پاکستان کے دستور کو تسلیم کرتے ہیں، اگر جواب اثبات میں ہے تو دستورِ پاکستان کے آرٹیکل IIمیں لکھا ہے: ’’اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہوگا‘‘۔ آرٹیکل 2Aمیں ہے: ’’ قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ اصول اور احکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیا جاتا ہے اور وہ بِحَسْبِہٖ مؤثر ہوں گے‘‘، قراردادِ مقاصد میں لکھا ہے: ’’چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کل کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکمِ مطلَق ہے اور پاکستان کے جُمہور کو جو اختیار واقتدار اُس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ آگے چل کر لکھا ہے: ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے تقاضوں کے مطابق بسر کرسکیں، جیسا کہ قرآن وسنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘‘۔ آرٹیکل31کے تحت لکھا ہے: (1) ’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں، (2) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت یہ کوشش کرے گی:
(الف): قرآنِ پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا، قرآنِ پاک کی صحیح اور مِنْ وَعَن طباعت و اشاعت کا اہتمام کرنا، (ب) :اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، زکوٰۃ وعُشر، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کرنا‘‘۔ اس آرٹیکل میں قرآن وسنت کی تعلیمات، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی اور سہولتیں فراہم کرنے کو ریاست کی ذمے داری قرار دیا گیا ہے، جبکہ ہمارے لبرل دانشوروں کو قرآن کا ترجمہ پڑھانے کی بات اتنی کھٹکی کہ جیسے قیامت نازل ہوگئی ہو۔
آرٹیکل 203 (الف) میں ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ کی تشکیل اور اس کے فرائض واختیارات کا ذکر ہے اور اس میں یہ درج ہے: ’’اس باب کے احکام دستور کے دیگر احکام پر غالب ہوں گے‘‘ یعنی اس امر کی تشریح کہ ملک میں پہلے سے نافذ العمل کوئی قانون یا نیا قانون جو منظوری کے مراحل میں ہے، آیا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے، یہ طے کرنے کا اختیار ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ کے پاس ہے اور ان فرائض کی ادائیگی میں دستورکا کوئی آرٹیکل یا قانون کی کوئی دفعہ اس کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔
آرٹیکل 227 کا عنوان ہے: ’’قرآن و سنت کے بارے میں احکام‘‘، اس کے تحت درج ہے: ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطورِ اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘، اس آرٹیکل میں دوباتیں بیان کی گئی ہیں: (الف) گزشتہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنا، (ب) تمام نئے قوانین اسلام کے مطابق بنانا۔ کیا یہ عمل قرآن وسنت کو پڑھے اور جانے بغیر تکمیل پاسکتا ہے، جبکہ دستور کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پارلیمنٹ میں پیش ہونی ہیں اور پارلیمنٹ کو ان پر بحث کرنے کے بعد ان کی منظوری دینی ہے۔ لیکن اب ہمارے لبرل دانشوروں کے نزدیک ریاست وحکومت کے امور اور نظامِ تعلیم میں قرآن کے ترجمے کی بات کرنا بھی قابلِ گردن زدنی ہے اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، بلکہ قائدِ اعظم کے پاکستان کی روح کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔
انیسویں صدی کے چھٹے اور ساتویں عشرے تک سیاست اور سیاسی جماعتوں پر کسی حد تک نظریات کی تہمت لگتی تھی۔ اُس دور کے عالمی سیاسی ماحول اور دو سپر پاورز کی کشمکش کے تناظر میں رائٹسٹ، لیفٹسٹ اور اسلامسٹ یعنی دائیں بازو، بائیں بازو اور اسلام پسند کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں، کسی حد تک لوگ سیاسی نظریات کو جانتے بھی تھے اور نظریاتی وابستگیاں بھی رکھتے تھے۔ لیکن اب یہ سب باتیں قصۂ پارینہ بن گئی ہیں، اب سیاست صرف مفاداتی، گروہی اور شخصیت پرستی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، سیاسی مزارعین کو اپنے قائدین کی ناموس کے دفاع سے فرصت ملے تو دین کے دفاع کے لیے وہ وقت نکالیں، پس اُن پر نظریے کی تہمت لگانا خود کو شرمسار کرنے کے مترادف ہے۔ جب کوئی دستوری اساس یعنی اسلام اور قرآن وسنت پر حملہ کرے تو دستورِ پاکستان کی رو سے وفاقی وصوبائی کابینہ، پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ اور مسلّح افواج کی اعلیٰ قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کے آگے سدِّ راہ بنیں، کیونکہ ان سب نے دستور سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، لیکن جہاں حلف کی پاسداری کی روایت ہی نہ ہو، وہاں وفا کاکیا تصور، بلکہ وفا کا لیبل لگاکر جفا کا چلن ہوتا ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
گِلۂ جفائے وفا نما، کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بُت کدے میں بیاں کروں، تو کہے صنم بھی ہَری ہَری
یعنی آج مسلمان وفا کا لیبل لگا کر اسلام کے ساتھ جو جفا کر رہے ہیں، اس کا گلہ حرم کو جو اہلِ حرم سے ہے، اگر میں کسی بُت کدے میں بیان کروں تو بُت بھی واہ واہ کریں گے، ہری ہری کہیں گے کہ، یہ کارنامہ تو ہمارے پیروکار یعنی بتوں کے آگے سجدہ ریز ہونے والے بھی انجام نہیں دے سکے، پس جو حشر مسلمانوں نے اسلام کا کر رکھا ہے، کوئی دشمنِ اسلام بھی شاید ہی کرسکے، چنانچہ علامہ اقبال نے اسلام کا مرثیہ ان الفاظ میں لکھا ہے:
میں اگر سوختہ ساماں ہوں، تو یہ روزِ سیاہ
خود دکھایا ہے، مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
’’یعنی اسلام کو اگر زبان عطا کی جائے تو وہ ببانگِ دہل یہ فریاد کرے گا: آج جو ناکامیاں میرے کھاتے میں ہیں، میرے وقار وافتخار کا سارا اثاثہ جو جل کر راکھ ہوچکا، اس کا گلہ مجھے کسی دشمن سے نہیں ہے، یہ انجام میرے گھر کے چراغاں نے مجھے دکھایا ہے،
میرے ماننے والوں نے ’’گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ کا یہ منظر خود تخلیق کیا ہے، اس پر کسی اور کو دوش دینے کے بجائے انہیں خود کو ملامت کرنا چاہیے اور اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے‘‘۔ یہی حال ہماری صحافت کا ہے کہ کبھی اس پر نظریے کی چھاپ تھی یا کم از کم تہمت لگتی تھی، مگر اب نظریے کی میل سے اس کا دامن پاک ہے، کسی زمانے میں نواب زادہ نصر اللہ خان نے ایک بڑے اخبار کے بارے میں کہا تھا: ’’وہ تو ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے‘‘، یعنی اُسے کسی نظریے سے غرض نہیں ہے، ہر طرح کا مال اپنے شوروم میں سجارکھا ہے، گاہک آئے اور اپنی پسند کا مال لے لے، ہمارا نظریہ صرف پیسے کمانا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کی بہار تو آگئی ہے، لیکن نظریے سے عاری ہے۔ بس طاقت کے جس مرکز سے گرم ہوا آتی ہے، اس کے بارے میں محتاط رہنا ہے، باقی جس کے ساتھ جو کھلواڑ چاہو کرو، نان ایشو کو ہمالیہ بناکر رونقیں لگائو، جیسے بعض اینکر پرسنز کا پسندیدہ موضوع جے آئی ٹی یا ایک امریکی خاتون سنتھیارچی ہے، جس نے ہمارے سیاست دانوں کا تماشا لگارکھا ہے، عدالتیں اور تفتیشی ادارے بھی اس کا حصہ ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں بتارہا کہ یہ غیر ملکی خاتون اسلام آباد میں پرتعیش زندگی کس کی سرپرستی میں گزار رہی ہے، کون اس کو مالی وسائل فراہم کر رہا ہے اور تحفظ دے رہا ہے، اُسے اتنے طویل عرصے کے لیے ویزا کس مصروفیت کے لیے دیا گیا ہے، پس اصل مسئلے پر کوئی بات نہیں کرے گا، بس تماشا لگانا ہے اور تصویریں فروخت کرنی ہیں۔ ایسی ہی ترنگ میں آکر خواجہ آصف نے کہا: ’’کوئی مذہب برتر نہیں ہے، سارے مذاہب برابر ہیں‘‘، یہ تو مذہب یا عقیدہ نہ ہوا، قمیص ہوگئی جس برانڈ کی ملی اٹھاکر پہن لی، جسم ہی تو ڈھانپنا ہے، جب تک کوئی مسلمان اپنے مذہب کو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں حق پر نہ سمجھے، وہ ایمان وعقیدے کا درجہ پاہی نہیں سکتا۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کا منشور اسلامی نظام کا نفاذ اور اسلامی اقدار کا تحفظ ہوتا ہے، مگر انہیں اس کے لیے فرصت ہی دستیاب نہیں ہے، قرآن وسنت کی ناموس کا تحفظ ان کا مسئلہ نہیں رہا۔ انہوں نے بھی ہر روز وہی مال بیچنا ہوتا ہے، جس کا مارکیٹ میں کوئی خریدار ہو، ورنہ دکان ویران ہوجائے گی۔ اسی طرح مذہبی طبقات کی ترجیحات اپنی اپنی ہیں، بعض مسائل کو کفر واسلام کا مسئلہ سمجھ کرساری توانائیاں اُس میں جھونک دی جاتی ہیں اور کفر کی طرف سے اسلام پر حملہ ہو تو لمبی تان کے سوجاتے ہیں۔