جمہوریت کُش وائرس

375

جہاں ایک طرف کورونا وائرس کی عالمی وبا نے اب تک پانچ لاکھ تہتر ہزار سے زیادہ افراد کی جان لی ہے اور عالمی معیشت کو سات ہزار چھ سو ستر ارب ڈالر کے نقصان کا اندازہ ہے، وہاں اس وبا کے سائے دنیا بھر کے جمہوری نظام پر بھی پھیل رہے ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ اس وبا نے سب سے پہلا وار برطانیہ پر کیا ہے جہاں اس پر فخر کیا جاتا ہے کہ یہاں جمہوریت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ حکومت نے کورونا وائرس کی روک تھام اور عوام کی زندگی بچانے کے لیے ہنگامی حالات کے نفاذ کا سہارا لے کر وسیع اختیارات حاصل کیے ہیں اور پارلیمنٹ کی اہمیت بہت کم کردی ہے۔ جس انداز سے پارلیمنٹ کے اجلاس ہورہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کی جمہوری روح کورونا وائرس نے قبض کر لی ہے۔ آدھے سے زیادہ خالی دارالعوام دیکھ کر جہاں اراکین ایک دوسرے سے دور بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور بحث بھی بہت پھسپھسی یقین نہیں آتا کہ یہ برطانوی پارلیمنٹ ہے۔
حکومت نے ہنگامی اختیارات کے بل پر بلدیاتی انتخابات اور لندن کے میئر کا انتخاب جو گزشتہ مئی میں ہونے والا تھا موخر کر دیا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلنے سے پہلے ہی حکومت میں وزیر اعظم کے مشیروں کا عمل دخل بڑھ گیا تھا لیکن عالمی وبا کے بعد ہنگامی صورت حال نے کابینہ کے وزیروں کی جگہ وزیر اعظم کے مشیروں نے بے حد اہمیت حاصل کر لی ہے جو عوام کے نمائندوں کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں اور وزیر اعظم بھی ان پر اس قدر تکیہ کرتے ہیں کہ جمہوری نظام کھوکھلا ہوگیا ہے۔ برطانیہ سے کہیں زیادہ یورپ میں جمہوری نظام کورونا وائرس نے تباہ کیا ہے۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے کورونا وائرس کا سہارا لے کر آمرانہ اختیارات سنبھال لیے ہیں۔ ان اختیارات کے تحت انہوں نے فرمانوں کے ذریعہ حکومت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اختیارات انہوں نے غیر معینہ مدت کے لیے حاصل کیے ہیں۔ فرانس کے آئین کے تحت صدر کو پہلے ہی وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی کورونا وائرس نے حملہ کیا صدر میکروں نے یہ اعلان کیا کہ فرانس کو حالت جنگ کا سامنا ہے اور ہنگامی اختیارات حاصل کر لیے۔ یورپ کے دس سے زیادہ ملکوں کی حکومتوں نے ہنگامی حالت کے نفاذ کے ذریعہ آمرانہ اختیارات حاصل کر لیے ہیں جن میں اٹلی، بلغاریہ، رومانیہ اور، فن لینڈ شامل ہیں۔ ان ملکوں کے عوام پریشان ہیں کہ ہنگامی حالات کے تحت پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اختیارات میں تخفیف ہوئی ہے اور اسی کے ساتھ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں پر اثر پڑا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ حکومتوں کے یہ آمرانہ اختیارات غیر معینہ مدت تک ان پر مسلط رہیں گے اور جمہوری نظام کی بحالی کے لیے انہیں دشوار گزار جدو جہد کرنی پڑے گی۔
برطانیہ میں ماہرین نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ اگلی سردیوں میں کورونا وائرس کی نئی لہر بے حد مہلک ثابت ہوگی اور اندازہ ہے کہ اسپتالوں میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ افراد اس وبا سے جاں بحق ہوںگے، اس صورت حال میں سوال یہ ہوگا کہ عوا م کی جان بچائی جائے یا جمہوریت کا تحفظ کیا جائے۔ بہت سے دانشور وں کی رائے ہے کہ اس عالمی وبا کے بعد دنیا میں جو نئے حالات سامنے آئیں گے ان کے مطابق جمہوریت کا انداز بھی بدلے گا اور طور طریقے بھی۔