جب سے عمران خان وزارت عظمیٰ کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے ہیں عوام کو نئے نئے جلوے دکھا رہے ہیں، نئے نئے خواب دکھا رہے ہیں۔ جہاں تک تعبیر کا تعلق ہے انہیں بھی خواب دکھائے گئے ہیں، تعبیر سے دور رکھا گیا ہے۔ آدمی وہی لوٹاتا ہے جو اُسے دیا جاتا ہے جسے تقدیر کا لکھا کہا جاتا ہے وہ اعمال کی بازگشت ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ تک کسی کو بھی طفل تسلیوں سے بہلایا جاسکتا ہے مگر ہر چیز کی حد ہوتی ہے، حد گزرجائے تو آدمی کے گزرنے کا وقت آجاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان برسر اقتدار آئے تو ان کے مشیروں نے شیخ چلی کے منصوبے پر عمل درآمد کرانے کی ٹھان لی۔ یوں قوم کو انڈے، مرغیاں، کٹے وغیرہ کے حوالے سے عمران خان کو باور کرایا گیا کہ خوشحالی سے ہم کنار ہونے کا اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں۔ شیخ چلی کا منصوبہ بظاہر تو دیوانے کا خواب لگتا ہے مگر اس پر عمل کیا جائے تو انسان کی قسمت بدل سکتی ہے۔ ہم نے مرغی انڈوں پر بٹھائی تو ہمارے والد محترم کی یونٹ کے مالی نے ایک انڈا دیا کہ اسے بھی اپنے انڈوں کے ساتھ رکھ دو اور جب چوزے نکلے تو اس کے انڈے سے بھی چوزہ نکل آیا۔ ہم نے اپنے چوزوں کے ساتھ اسے بھی رکھ لیا، اس کا چوزہ مرغی نکلا اور ہماری مرغیوں کے ساتھ رہنے لگا اور جب اس کی مرغی نے انڈے دیے تو اس نے ان انڈوں کو مرغی کے نیچے رکھ دیا۔ اس نے کئی بار ایسا کیا اور پھر مرغیاں بیچ کر بکری خرید لی۔ بکری کے بچے ہوئے پھر اس نے بکریاں بیچ کر ایک کٹی خرید لی اور ایک دن وہ انڈے کی بدولت بھینس کا مالک بن گیا۔
وزیر اعظم عمران خان اعلانات تو بہت کرتے ہیں مگر عمل درآمد کی نوبت نہیں آتی بلکہ کوئی نیا پروگرام سامنے آجاتا ہے۔ یوں پہلا اعلان اعلان ہی رہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 50 لاکھ مکانات بنانے کا اعلان کیا تو TV اینکر نے ان کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے مگر وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ایک ہی بیان نے عمران خان کے منصوبے کو نشیب میں دفن کر دیا۔ فرماتے ہیں مکان بنانا حکومت کا کام نہیں۔ بجا فرمایا مکان بنانا حکومت کا کام نہیں بلکہ حکومت کا کام قوم کو بیوقوف بنانا ہے اور یہ کام تحریک انصاف کی حکومت بڑے انصاف اور دیانت کے ساتھ کر رہی ہے۔ وطن عزیز میں ایک ہی کام دیانت داری کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ ہے بددیانتی۔ وفاقی وزیراطلاعات کی اطلاع کے بعد مکان بنانے کا اعلان بے معنی ہوچکا ہے مگر اس پر بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ آمدنی رکھنے والوں کو مکان دیے جائیں گے اور اس کی ماہانہ قسط تیس، چالیس ہزار روپے ہوگی۔ ایک آدمی کی تنخواہ دس یا پندرہ ہزار روپے ہے اور اگر چھٹی کر لے تو تنخواہ مزید کم ہوجاتی ہے، بارہ سے چودہ گھنٹے ڈیوٹی بھی لی جاتی ہے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق آٹھ گھنٹے کے بعد اوور ٹائم دیا جائے گا، ہفتہ میں ایک چھٹی ہوگی اور دیگرسر کاری چھٹیوں کا بھی حقدار ٹھیرایا گیا ہے۔ مگر یہ سب کچھ اعلان تک ہی محدود ہے۔
ان حالات میں اگر عوام کو مکان مل بھی جائے تو وہ ماہانہ قسط کیسے ادا کرے گا اور بینک اسے کس بنیاد پر قرض دے گا۔
ان دنوں حکومت سماجی فاصلے پر بہت زور دے رہی ہے۔ ہر ادارے کی کوشش ہے کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے اگر اتنی ہی کوشش معاشی فاصلے ختم کرنے کے لیے کی جائے تو خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی معاشی فاصلے کو کم کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی کیوں کہ معاشی فاصلہ ہی ان کے اقتدار کی سیڑھی ہے۔ ایک ایسی سیڑھی جس کے سامنے انسان اپنی پیڑھی کو بھی بھول جاتا ہے۔ عام آدمی کو گھر دینا ہے تو اس کی قسمت معاشی حالات کے مطابق ہونی چاہیے۔ مہنگائی کے سونامی نے عوام کے قوت خرید کو ڈبو دیا ہے۔ خدا جانے یہ منصوبہ بنانے والے کس دنیا کے رہنے والے ہیں۔ عوام کی معاشی حالت پر غور کیے بغیر ایسے منصوبے بناتے ہیں جو قابل عمل نہیں ہوتے۔ یوں بھی عوام کو ریلیف دینے میں سنجیدہ نہیں وہ صرف گا، گی، گے کا راگ ہی الاپتی رہتی ہے مگر کرنا کچھ نہیں۔
نیت میں کھوٹ ہو تو منزل دور ہی رہتی ہے۔ منزل پانے کے لیے نیت کا خالص ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ سیانوں نے مدتوں پہلے سمجھایا تھا کہ نیت خالص ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے مگر جن کی منزل ایوان اقتدار ہو وہ اس سے آگے نہیں سوچتے۔ وزیراعظم عمران خان کا بیانیہ ہے کہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے سب کو جیل میں ڈال دیں گے۔ خیرخواہوں نے بہت سمجھایا کہ یہ کام عدلیہ کا ہے اسے ہی کرنے دیں مگر وہ اپنے بیانیے پر ڈٹے رہے۔ غریبوں کو مکان دینے کا وعدہ کیا ہے تو فرماتے ہیں کہ تعمیرات میں حصہ لینے والوں سے نہیں پوچھا جائے گا کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آیا گویا غریبوں کو مکان دینے کے بہانے کالے دھن کو سفید کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ عام آدمی کے پاس اتنی دولت نہیں ہوتی کہ وہ تعمیراتی کاموں میں سرمایہ کاری کر سکے۔