بھارت کے دوست ممالک دشمن بن گئے؟

703

بھارت کے دوست ممالک دشمن بن رہے ہیں؟ ایران، بھارت، افغانستان ’ٹرانزٹ ٹریڈ‘ کا معاہدہ ختم ہونے کو ہے، ایران نے چاہ بہار ریل منصوبے سے بھارت کو نکال باہر کردیا۔ اطلاعات ہیں کہ ایران اور بھارت کے تعلقات میں ہر سطح پر سرد مہری ہے۔ بھارتی علاقے پر چین کے قبضے پر ایران کی خاموشی نے بھی دونوں ممالک میں تعلقات کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت اور ایران نے 2016ء میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ سے زاہدان تک ریلوے لائن تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ 4 سال بعد ایرانی حکومت نے فنڈز اور منصوبہ شروع کرنے میں مسلسل تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت کو منصوبے سے خارج کردیا اور اب یہ منصوبہ خود تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ 2015-16ء کی بات ہے جب پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تحت گوادر پورٹ کا کام تکمیل کے قریب تھا۔ عین اُسی وقت بھارت کے وزیراعظم مودی نے پاکستان دشمنی میں ایران کے قریب آنا شروع کیا اور ایران کے صدر حسن روحانی سے قبل ہاشمی رفسنجانی کے دور صدارت میں بھی ایران اور بھارت کے مثالی تعلقات تھے، ہاشمی رفسنجانی نے اس دوران بھارت کا دو مرتبہ دورہ کیا اور دوسرے دور ے میں ایرانی آرمی چیف بھی صدر ہاشمی رفسنجانی کے ساتھ تھے۔ اس دورے میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدے کی تیاریاں مکمل ہو چکی لیکن عین موقع پر صدر ہاشمی رفسنجانی نے یہ کہہ کر معاہدے سے انکار کر دیا کہ انتخابات کے بعد نئے صدر یہ کام کریں گے۔
حسن روحانی کے ایران کا صدر بنے کے بعد مودی، حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے 16مئی 2016ء کو تہران میں ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے افغانستان ’ٹرانزٹ ٹریڈ‘ کی سہولت مہیا کرنے کے لیے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ گوادر کی افادیت کو ختم کیا جائے۔ اس معاہدے کے تحت تینوں ممالک نے یہ طے کیا تھا کہ چاہ بہار کی بندرگاہ سے پوری طرح فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ نریندر مودی اور اشرف غنی کے ساتھ حسن روحانی نے اس موقع پر اعلان کیا کہ تینوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے آج کا دن تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ تہران، دہلی اور کابل سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ خطے کے ممالک کی ترقی کی راہ باہمی تعاون اور وسائل کے مشترکہ استعمال ہی سے آگے جاتی ہے۔ اس موقع پر نریندر مودی نے کہا کہ وہ دنیا کو جوڑنا چاہتے ہیں لیکن خطے کے ملکوں میں رابطہ ہی ترجیح ہونی چاہیے۔ اشرف غنی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ چاہ بہار سے آغاز ہو رہا ہے لیکن اس کا اختتام وسیع پیمانے پر ترقی اور اقتصادی اور ثقافتی تعاون پر ہو گا۔ قبل ازیں بھارت ایران کی اہم بندرگاہ ’’بندر عباس‘‘ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر 50 کروڑ ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا تھا اس بجٹ کو بعد میں مزید بڑھانے کے لیے بھارت نے ایران میں سرمایہ کاری کے لیے 2ارب ڈالر مختص کر دیے تھے لیکن یہ سب ’’خواب ہی خواب‘‘ تھا اس کے علاوہ بھی ایران کے متعدد مشترکہ منصوبوں پر سیکڑوں ملین ڈالر کے 12 منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ ان منصوبوں اور معاہدوں کا اعلان 16مئی کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ ایران کے دوران کیا گیا تھا۔ تہران میں نریندر مودی اور حسن روحانی نے چاہ بہار میں 20 کروڑ ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ پاکستان کی گوادر کی بندرگاہ سے تقریباً سو میل مغرب میں واقع ہے اور یہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے کھلے سمندروں کے ذریعے تجارت کرنے کا متبادل راستہ فراہم کر سکتی ہے۔ ایران اور بھارت نے جنوبی ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی سمیت متعدد معاہدوں پر دستخط کیے جن میں وسطی ایشیا کے سمندروں سے دور ممالک کے لیے تجارتی راستوں کی وسعت کے معاہدے بھی شامل تھے۔ لیکن چار سال گزرنے کے بعد بھی چاہ بہار میں بھارتی سرمایہ کاری کا دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔
وزیر اعظم مودی اپنے ڈرامائی خطاب میں کہا کہ وہ اس بات کو نہیں بھول سکتے ہیں کہ گجرات میں 2001ء میں زلزلے کے بعد ایران پہلا ملک تھا، جو مدد کے لیے آگے بڑھا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی دوستی ہے۔ ایک دوست اور پڑوسی کے طور پر دونوں ملک ہمیشہ ایک دوسرے سے ترقی اور خوشحالی میں شریک ہوئے ہیں۔ اس معاہدے میں ثقافتی تعاون، سائنس اور ٹیکنالوجی، ثقافتی تبادلے، چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی اور چاہ بہار، زاہدان کے درمیان ریلوے لائن بچھانے سے متعلق معاہدے اہم تھے لیکن یہ سب آج بھی کاغذوں ہی میں نظر آرہے ہیں۔ اس موقع پر دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور سائبر جرائم کے خطرے سے نمٹنے کے لیے دونوں ملک باقاعدہ تبادلہ خیال پر متفق ہوئے ہیں۔ اس وقت ایرانی صدر حسن روحانی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ چاہ بہار بندرگاہ بھارت ایران کے درمیان تعاون کی ایک بہت بڑی علامت بن سکتا ہے۔ لیکن چاہ بہار بندرگاہ بھارت ایران کے درمیان ان شاء اللہ عدم تعاون کی ایک بہت بڑی علامت بن جائے گی۔
اس معاہدے بعد ہی پاکستان میں دہشت گردی میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ خاص طور پر کر اچی اور بلوچستان میں جہاں 14جولائی 2020ء کو بھی فوجی جوانوں پر حملہ ہوا اس میں چار جوان شہید اور 7 زخمی ہوئے جن میں سے 5شدید زخمی ہیں۔ پورا بھارتی میڈیا اس خطرناک معاہدے بعد بھونکنے میں مصروف نظر آرہا تھا اور آج بھی مصروف ہے۔ بھارت ایران معاہدے کے بعدکلبھوشن کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ یہ چاہ بہار میں رہائش پزیر تھا، جس نے کراچی سمیت بلوچستان میں بہت بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی واردتوں میں ملوث اور دہشت گردی کروانے کا اعتراف کیا اور بہت بڑا دہشت گردی نیٹ ورک قائم کیا۔ اس بارے میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ اس میں ایران براہ راست ملوث نہ ہو لیکن اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کے جال بچھانے میں ایرانی بھی ملوث رہے ہیں۔ 14جولائی اور اس سے قبل جون میں فوج پر حملے کر نے والے دہشت گردوں کے لیے ایران فرار ہونے کے سوا کہیں کو ئی راستہ نہیں ہے۔
بھارتی علاقوں پر چین کے قبضے بعد بھارتی سرکار پر ہر آنے والے دن کے ساتھ ایک بری خبر بھارت کا مقدر بن چکی ہے، 10جولائی 2020ء کو سری لنکا کے نئے ’’صدر راجا پاکسا (PAKSA) نے بھارت سے سری لنکا بمبئی بندرگاہ معاہدے کو بھی ختم کر نے کا اعلان کر دیا اور اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو سری لنکا کے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری سے روک دیا گیا ہے اور چینی سی پیک معاہدوں پر کام کو تیز کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ14جولائی کو بھارت، جاپان کی شراکت داری سے بلٹ ٹرین کا پروجیکٹ ختم کر دیا گیا ہے۔ جاپان نے بھارت کو سرکاری طور پر بتادیا ہے بھارتی میڈیا کے مطابق اس پروجیکٹ پر 2 ارب ڈالر سے زائد کی لاگت آئے گی اور اب دونوں ممالک اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس علاوہ بھوٹان اور بھارت کے درمیان بھی تعلقات مندی سے دوچار ہیں۔ بھوٹان کو اپنی تجارت کے لیے بھارت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ بھارت نے اس شرط پر تجارتی راہداری فراہم کی تھی کہ ’’بھوٹان کی خارجہ پالیسی نئی دہلی تیار کیا کرے گا۔ بھوٹان نے اب اس سے اپنی جان چھڑا لی اور سی پیک میں شامل ہو گیا۔ جس کے فوری بعد بھوٹان نے بھارت سے ہر طرح کے تعلقات ختم کر لیے ہیں۔
خطے کا راجا مہاراجا بنے کا خوب دیکھنے والے مودی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ’’معیشت کی مضبوطی اور علاقے کے لوگوں کو پریشان کرنے سے کوئی ملک بڑا نہیں بن سکتا۔ بھارت جس طاقت کا بھرم سارک اور مشرقی ایشیائی ممالک کو دکھاتا تھا چین کے لداخ، گلوان ویلی اور (Y) ایریا پر قابض ہونے کے بعد اس غبارے سے ہو نکل چکی ہے اور جس غبارے سے ہو نکل جائے اس کو تو کوئی بچہ بھی ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہوتا۔ بھارت کے پڑوسی ممالک بھارت کو بڑا تسلیم کرتے تھے لیکن بھارت کو یہ عزت راس نہیں آرہی تھی۔ بھارت کے تمام پڑوسی مودی سے تنگ تھے اس لیے وہ سب بھارت کو پیٹھ دکھانے میں مصروف ہیں۔ یہ سب ممالک جلدی میں ہیں اور سی پیک میں شامل ہو کر سکون عزت اور ملکوں درمیان باہمی اعتماد کے رشتوں کو قائم کرنے میں مصروف ہیں۔