تانبا چور کیبل چور

315

ہفتہ 11 جولائی کو نرسری کراچی میں واقع کراچی الیکٹرک کے دفتر کے عین سامنے کراچی کی واحد ہمدرد جماعت ’’جماعت اسلامی‘‘ کی طرف سے کے الیکٹرک کی جانب سے بد ترین لوڈ شیڈنگ اور بلنگ اور اوچھے اقدامات کے خلاف ایک عظیم الشان دھرنے کا اہتمام کیا جس میں اہلِ کراچی نے کثیر تعداد میں شرکت کرکے، کے الیکٹرک کے خلاف اپنے جذبات اور غصے کا اظہار کیا اور حکومت وقت اور اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کی کہ اس ظالم ادارے کو فوری حکومتی تحویل میں لیا جائے جو حکومت اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کے بعد نجی شعبے کے حوالے کیا گیا تھا جس کے بعد اس ادارے نے من مانی کارروائیوں سے کراچی کے عوام کا خون نچوڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہ بات تو اب زبان زدِ عام ہے کہ حکومت کے الیکٹرک کے خلاف اس لیے کسی کارروائی یا راست اقدام سے گریزاں رہتی کہ اس کی پھینکی گئی ہڈی سے نہ صرف وہ بلکہ سابقہ حکومتیں بشمول ایم کیو ایم مستفید ہوتی رہی ہیں اور کے الیکٹرک کے سربراہ عارف نقوی کی طرف سے کی گئی فنڈنگ نے عمران خان کو گدا سے شاہ بنایا۔ لہٰذا حکومت وقت کی طرف سے کی جانے والی تمام تر تنبیہات ان کے لیے میری بلی مجھ ہی سے میائوں سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ایک طرف ملک میں پھیلی وبا کورونا ہے جس نے ہر کس و ناکس کو کچھ نہ کرونا کی بوتل میں بند کر رکھا ہے اور دوسری جانب اس وبا کے متاثرین جن کے لیے یہی تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں سے دور اور خود کو محدود و محصور کر لیں جولائی کے اس آگ برساتے موسم میں ان کے لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ دہری اذیت کا سبب ہے یہی نہیں کے الیکٹرک کی جانب سے صارفین کو حکومت کی ہدایت کے باوجود کسی قسم کی رعایت بھی نہ دی گئی جبکہ وبا اور اس کے نتیجے میں آئی بیروزگاری میں بھی کراچی کے صارفین کے لیے نرخ میں فی یونٹ 2.89 پیسے کا اضافہ بھی کیا گیا جسے اس عوامی احتجاج کے باعث کچھ عرصہ کے لیے موخر کر دیا گیا۔
کے الیکٹرک کو من مانی کارروائیاں کرنے میں پوری طرح حکومت کی آشیر باد حاصل ہے، کون نہیں جانتا کہ ان بلوں کی اصل رقم پر نجی صارف کے لیے 16 فی صد جبکہ کمرشل صارف کے لیے 25 فی صد حکومتی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ نجی صارف کے لیے یہ ٹیکس فیول ایڈجسٹمنٹ، جی ایس ٹی، الیکٹرک ڈیوٹی، پیک اور آف پیک اوقات کی مد میں جبکہ کمرشل صارف کے لیے اس میں دو فی صد اضافی جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ ان بلوں میں پی ٹی وی کے لیے بھی بھتا وصول کیا جاتا ہے۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ ملک بھر میں ہر قسم کی اشیاء کی خرید و فروخت کے نرخ مقرر ہیں محلے پڑوس تک میں دودھ دہی کی دکانوں بیکری سبزی اور گوشت فروش تک آپ سے مقررہ قیمت وصول کرتا ہے اور مقرر کردہ نرخ کو قابو میں رکھنے کے لیے ادارے بھی موجود ہیں جن کی دکھاوے کی مخصوص کاروائیاں یا قانون کا سہارا لیکر خود اپنی جیبیں بھرنے کا عمل اور ان کے چھاپوں اور پکڑ دھکڑ ہم سب کی نظروں سے گزرتی اور ہمارے علم میں آتی رہتی ہیں تاہم کے الیکٹرک ہو یا واپڈا اس کے لیے کوئی نرخ مقرر نہیں۔ کے الیکٹرک کے نرخ بھی عجیب ہیں ایک سو یونٹ تک کے استعمال کے لیے یہ، ایک سو سے تین سو تک والوں کے لیے یہ اور سات سو یا اس سے اوپر والوں کے لیے ہمارے چارجز یہ ہوںگے جبکہ عام قاعدہ اس کے برعکس ہے کم خرید والوں کو کم رعایت جبکہ زیادہ والے زائد فائدہ حاصل کرتے ہیں یعنی آپ یوں کہہ لیجیے کہ پرانے وقتوں کے راجے مہاراجوں کا لگانی نظام ہے جو اب بھی جاری ہے پہلے یہ کام ان کے پالتو گماشتے اور آج کے دور میں یہ کام ویل آف قسم کے پڑھے لکھے لوگوں سے لیا جاتا ہے جن کی پشت پناہی حکومتی ایس آر او (SRO) اور میمو آف انڈر اسٹینڈنگ (MOU) کیا کرتے ہیں، حکومتی طفل تسلیاں اب بھی جاری ہیں گورنر سندھ اور وفاق کے ایک ناکارہ مگر چہیتے وزیر اسد عمر کے کراچی کے عوام سے اس وعدہ کو گھنٹوں بھی نہ گزرے کہ آئندہ کراچی میں کسی قسم کی کوئی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی کے الیکٹرک نے اسے ہوا میں اڑا کر حکومت وقت کی مزید تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی جن کے نزدیک عزت تو آنی جانی شے ہے۔
مندرجہ بالا حقائق اور معروضات کے بعد ضروری ہے کہ حکومت اور اعلیٰ عدلیہ سے آرمی چیف سے اس لیے نہیں کہ ان کا کام محض ملک و ملت کی حفاظت ہے کراچی کے بے بس شہریوں کی اپیل ہے کہ وہ کے الیکٹرک کے ناروا اقدامات کیخلاف سخت ترین کاروائی اور راست اقدام کریں جس سے شہریوں کو ریلیف ملے اور ملکی خزانے کا زر کثیر جو سبسڈی کے نام پر کبھی آٹا چینی مافیا اور کبھی پٹرول اور ادویات مافیا اور کبھی تعمیراتی شعبے کو دیا جاتاہے اور جس کا فائدہ بائیس کروڑ نہیں حکومتی بنچ پر بیٹھے چند سو افراد کی جیبوں میں جاتا ہے اسے عام آدمی تک پہنچانے کی کوئی سبیل کرے اور واپڈا اور کے الیکٹرک کے لیے بشمول تمام ٹیکس کوئی ایک نرخ مقرر کریے جو عام آدمی اپنے استعمال شدہ یونٹ کے ذریعے خود چیک کر لے آیا اس کا بل صحیح ہے یا نہیں۔
بہت زیادہ پرانی بات نہیں میرے حافظے میں پوری طرح محفوظ ہے کہ سوئی سدرن گیس والوں نے عوام کو ایسے میٹر فراہم کیے تھے جو موبائل سروسز کی طرح پری پیڈ کارڈ سے چلا کرتے تھے صارف کو آزادی تھی کہ وہ اپنی سہولت اور استعمال کے مطابق گیس دفاتر سے وہ کارڈ حاصل کرے اور سکون سے رہے، نجانے سوئی سدرن والوں کو کیا ہوا وہ بھی اسی ڈگر پر چل پڑے جو کے الیکٹرک کا وتیرہ تھا میری دانست میں اس طرح سے کے الیکٹرک کیا دیگر اداروں میں بھی اخراجات میں کمی آئیگی اور وہ اس بچی رقم کو اپنے صارفین کو منتقل کرکے اپنے دفاتر کے باہر چور ہے چور ہے کے الیکٹرک چور ہے۔ بلب چور تانبا چور وغیرہ کے نعرے بھی بچ جائینگے اور ان کو اپنی گرتی ساکھ کی بحالی میں مدد بھی ملے گی، اب یہ کے الیکٹرک کو سوچنا ہے کہ وہ اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے کس راستے کا چنائو کرتے ہیں۔