گھروندہ

314

گھروندوں سے کھیلنا بچوں کا کھیل ہے۔ ہماری بدنصیبی یہی ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بھی گھروندوں سے کھیلنے کے شوقین ہیں۔ جب بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے تنگ آ کر عوام سٹرکوں پر آتے ہیں انہیں تسلی دینے کے لیے حکمران دیامیر بھاشا ڈیم کا گھروندا بنانا شروع کردیتے ہیں اور ستم بالا ستم یہ کہ ہر حکومت اپنے گھروندوں کو تاریخی اقدام قرار دیتی ہے۔ شاید سیاست میں شرم و حیا کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی عاصم سلیم باجوہ کا ارشاد گرامی ہے کہ عوام حوصلہ رکھیں بہت جلد لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا دیامیر بھاشا ڈیم کا آغاز کردیا گیا ہے جو تاریخی اقدام ہے من حیث القوم ہماری تاریخ پندرہ صدیوں پر محیط ہے۔ مگر پاکستانی ہونے کے ناتے ہماری تاریخ چند عشروں کی ہے اور چند عشروں میں کسی بھی قوم کی تاریخ نہیں بنتی یوں بھی دیامیر بھاشا ڈیم پر بھاشن دینے سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز تو غالباً سبھی حکومتوں نے کیا ہے مگر کوئی بھی حکومت بھاشا ڈیم کی تعمیر نہ کراسکی۔ اب تحریک انصاف نے بھی پیش رو حکومتوں کی طرح بھاشا ڈیم کا آغاز کردیا ہے جسے تاریخی اقدام قرار دے کر تالیاں بجائی جارہی ہیں۔ حالات واقعات بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنے پیش رو حکومتوں کی طرح دیامیر بھاشا پر گھروندا ہی بنائے گی۔
بارش کے بعد ریتلی زمین مخملی ہوجاتی ہے تب محلے کے سارے بچے گھروندے بنانا شروع کردیتے ہیں اور جب سورج نکل آتا ہے تو اس کی تمازت ناقابل برداشت ہوجاتی ہے تب بچے گھروندے توڑکر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومتوں کو کس سورج کی تمازت دیامیر ڈیم کی تعمیر سے روک دیتی ہے گھروندے بنانا بچوں کا کھیل ہے مگر حکومتیں قوم کو گھروندوں سے کیوں بہلاتی ہیں؟ ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ ہمیں دوست دشمن کی تمیز ہی نہیں کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ گمراہی ہمارے خمیر میں شامل ہے، پروپیگنڈا ہمارا من پسند گیت ہے۔ یہ بات کون بھول سکتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں ٹرینیں بجلی سے بھی چلا کرتی تھیں۔ یادش بخیر پاکستان نے کسی ملک کو قرض بھی دیا تھا مگر آج ہر حکومت کشکول اٹھائے دامن پھیلائے ملکوں ملکوں بھیک مانگتی پھر رہی ہے۔ مگر کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ اس معاملے پر غور کرے۔ ایوب خان کے زوال کا سبب یہی تھا کہ پاکستان ہر معاملے میں خودکفیل ہورہا تھا اگر انہیں کچھ وقت اور مل جاتا تو کالا باغ ڈیم بھی بن جاتا اور لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا سیاسی دانشور اور جمہوریت کے گوئیے ایوب خان کو آمر کہتے نہیں تھکتے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آمر نے پاکستان کو خوشحالی دی قوم کو جینے کا حق دیا۔ جمہوری حکومتوں نے کیا کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جمہوریت نے ہمیں تنگ دستی بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر حکومت قوم کو خوشحالی اور لوڈشیڈنگ سے نجات کی نوید سناتی ہے مگر اس کے بعد تصور جاناں میں کھوجاتی ہے، ایوب خان نے تمام اداروں میں ماہر افراد کا انتخا ب کیا تھا جنہوں نے ملک وقوم کی بہتری کے لیے کام کیا، مگر بدنصیبی یہ بھی ہے کہ اس کے بعد جو بھی حکمران آیا اس نے عزیزواقارب اور احباب نوازی کا وتیرا اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں قیادت کا بحران پیدا ہوگیا اور قوم بد حال ہوگئی۔ وزیراعظم عمران خان نے جن لوگوں کا انتخاب کیا ہے ان کا ماضی اتنا داغ دار ہے کہ وہ داغ ناسور دکھائی دیتے ہیں اور جب کسی ملک میں ناسور زدہ حکمران مسلط کردیے جائیں تو کرپشن کیسے ختم ہوسکتی ہے۔ اگر وزارت عظمیٰ کی خواہش عمران خان کی سوچ پر آسیب کی طرح سوار نہیں ہوئی ہوتی تو وہ دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کرتے تاکہ انہیں دو تہائی کی اکثریت حاصل ہوجاتی۔ یوں ہی عمران خان اور ان کے حامی اور طرف داروں کا دعویٰ ہے کہ وہ آخری چوائس ہیں اس پس منظر میں انہیں آخری چوائس دینے والے دو تہائی اکثرت بناتے ورنہ۔۔۔ وہ حکومت سنبھالے سے انکار کردیتے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کا یہ دلیرانہ فیصلہ قوم کے لیے سرپرائز ہوتا ایک ایسا سرپرائز جو قوم کو ان کا دیوانہ بنا دیتا قوم اسی کو اپنا رہنما تسلیم کرتی ہے جو دلیری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ قوم بھٹو مرحوم کی دیوانی یوں ہی نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ بھٹو محروم نے کچھ ایسے فیصلے کیے تھے جس نے ان کو قوم کا ہیرو بنا دیا تھا۔ اگر وہ کچھ غلطیاں نہ کرتے تو ساری قوم انہیں ہیرو مان لیتی انسان خطا کا پتلا ہے خطا اس کے خمیر میں شامل ہے۔ بھٹو مرحوم نے بھی کچھ غلطیاں کی۔ صدر ایوب خان نے منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بنا دیا تھا اگر ذوالفقار علی بھٹو کالا باغ ڈیم سے چشم پوشی نہ کرتے تو آج لوڈشیدنگ کا خطرہ نہ ہوتا اور نہ یہ خدشہ بچتاکہ بھارت پاکستان کو صومالیہ بنا دے گا۔