’’صدر ایوب زندہ باد‘‘

1051

یادیں غیر سیاسی ہوتی ہیں۔ پس ہماری اِن یادوں کو سیاسی نہ جانیے، ذاتی گردانیے۔
سنا ہے کہ ہم ۱۹۵۶ء میں پیدا ہوئے۔ ابھی تقریباً ڈھائی سال کے تھے کہ ملک میں پہلا مارشل لا لگ گیا۔ ڈھائی برس کے بچے کی بساط ہی کیا ہوتی ہے کہ کچھ کر سکے۔ سو مارشل لا لگا رہا۔ جو لوگ ڈھائی برس کے نہیں تھے، اُنہوں نے شاید کچھ کیا ہو۔ مگر پھر بھی مارشل لا لگا رہا۔ مارشل لا کے سائے میں پل کر ہم چھے برس کے ہوئے تو سنا ہے کہ ہمارے چھے برس کے ہونے پر مارشل لا اُٹھا لیا گیا تھا۔ ہمیں خود اپنی اُٹھان کا ہوش نہ تھا تو مارشل لا اُٹھنے کی کیا خبر ہوتی۔ سنا ہے کہ جب ہم پانچ برس کے تھے تو ایک آئین بنایا گیا۔ یہ بھی سنا کہ ہم چھے برس کے ہوئے تو اُس آئین کے تحت الیکشن کرایا گیا اور الیکشن کے نتیجے میں مارشل لا اُٹھایا گیا۔ پَر اُس وقت ہمیں ان باتوں کا ہوش نہ تھا۔ یہ باتیں تو ہوش سنبھالنے پر معلوم ہوئیں۔ الیکشن کا ہلکا ہلکا اور دھندلا دھندلا منظر ہمیں کچھ کچھ یاد ہے۔ شاید بہت چھوٹے چھوٹے انتخابی حلقے بنائے گئے تھے۔ ان حلقوں سے ایک ایک بی ڈی ممبر منتخب کیا جانا تھا۔ بی ڈی کا مطلب تھا Basic Democracy یعنی ’’بنیادی جمہوریت‘‘ عوام کو ہر محلے سے یہ بی ڈی ممبر منتخب کرنے تھے، پھر ان بی ڈی ممبرز کو صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ارکان منتخب کرنے تھے۔ آخر میں یہی بی ڈی ممبر مل کر صدرِ پاکستان بھی منتخب کرتے۔ گویا عوام صرف بی ڈی ممبر ہی منتخب کرتے تھے۔ مگر عوام بھلا کسی کو کہاں منتخب کرتے ہیں:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
وہ تو کچھ اور لوگ ایک ’’امیدوار‘‘ کو منتخب کرکے عوام کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں کہ لو اِسے منتخب کرو۔ جس کو کوئی کھڑا نہیں کرتا، وہ خود اُٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ چلو مجھے منتخب کرو۔ ملیر توسیعی کالونی کراچی میں ہمارے (“F” ایریا کے) محلے میں اُس وقت کی سیاسی جماعتوں کے ’’متحدہ محاذ‘‘ کا زور تھا۔ ہمارے محلے سے جو صاحب منتخب ہوئے اُن کی انتخابی مہم کا منظر بھی یاد ہے۔ اُس زمانے میں خوش خط لوگ گلی گلی پائے جاتے تھے۔ ہماری گلی کے ایک خوش خط نے ٹین کا ایک کنستر لے کر کاٹا اور اُسے پھیلا کر اچھا خاصا تختہ سا بنا لیا۔ پھر اُس پر نیل سے دوہرے حروف میں لکھا: ’’شاہد حسین بخاری، انتخابی نشان کلھاڑی، متحدہ محاذ کے واحد امیدوار‘‘ یہ حروف کندہ کرنے کے بعد چھینی سے کاٹ لیے۔ لو صاحبو! یہ بن گیا ایک سانچہ۔ اب اسے دیوار پر رکھ کر تارکول ملے سیاہ رنگ کا پُچارا پھیرا جائے گا اور یہ نقش کسی بہتان کی طرح دیوار پر ثبت ہوجائے گا۔ مٹائے نہیں مٹے گا۔ اس عاجز کو کہنے دیجیے کہ ’’مرا مزاج لڑکپن سے شاعرانہ تھا‘‘ سو اندر کا شاعر یہ سوچا کرتا تھا کہ اگر اس دیوار نویسی کا آخری جملہ یوں ہوتا کہ ’’متحدہ محاذ کی واحد اُمیدواری‘‘ تو نعرے میں ایک شعری حُسن پیدا ہو جاتا۔
۱۹۶۴ء کے اواخر میں صدارتی انتخاب کا غلغلہ مچا۔ ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ’’متحدہ محاذ‘‘ کی طرف سے صدارتی امیدوار تھیں۔ ایوب خان کا انتخابی نشان گلاب تھا اور فاطمہ جناح کا لالٹین۔ کراچی میں اور پورے مشرقی پاکستان میں ’’لالٹین‘‘ کا زور تھا۔ یہ بھی یاد آیا کہ سینوں پر آویزاں کرنے کے لیے ’’لالٹین‘‘ کا جو بِلّا بنایا گیا تھا اُس پر یہ مصرع درج تھا: ’’پُھولوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘۔ فاطمہ جناح جہاں تقریر کرنے جاتیں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جمع ہو جاتا۔ چناں چہ سرکار کی طرف سے پابندی لگا دی گئی کہ انتخابی تقریر سننے کے لیے عوام نہ جائیں، صرف بی ڈی ممبر جائیں۔ ۲ جنوری ۱۹۶۵ء کو صدارتی انتخابات ہوئے۔ سوائے کراچی کے، فاطمہ جناح ہر جگہ سے بُری طرح ہار گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب صدر ایوب کے چیف الیکشن ایجنٹ تھے۔ انھی دنوں ہم نے اپنے بڑوں سے سنا کہ الیکشن میں بُری طرح ’’جھرلو‘‘ پھیرا گیا ہے۔ ہمیں قطعاً علم نہ تھا کہ یہ کیا شے ہے اور کیسے پھیرتے ہیں۔
اب ہم پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول ملیر کالونی میں پڑھتے تھے۔ یہ اسکول عرفِ عام میں ’’ڈبل اسٹوری اسکول‘‘ کہلاتا تھا، کیوں کہ یہ اُس علاقے کا واحد اسکول تھا جس کی عمارت دو منزلہ تھی۔ ایف ساؤتھ میں جناح اسکوائر کے قریب ہی واقع تھا۔ اب بھی ہوگا۔ اسکول میں ہر روز بالٹی بھر بھر کر پوڈر کا دودھ لایا جاتا اور گلاس بھر بھر کر سب طالب علموں کو پلایا جاتا۔ کہا جاتا کہ یہ دودھ ’’صدر ایوب‘‘ نے بھجوایا ہے اور بچوں کو پلانے کے لیے امریکا سے منگوایا ہے۔ (امریکا نے بڑی بھاری مقدار میں خشک دودھ کی امداد بھجوائی تھی)۔ اپنے پورے دورِ اقتدار میں ایوب خان ’’صدر ایوب‘‘ کہے جاتے تھے۔ موافق مخالف سب انہیں ’’صدر ایوب‘‘ ہی کہتے تھے۔ خالی نام کوئی نہیں لیتا تھا۔ بعد میں یہ لقب کسی کے ساتھ نہیں جچا۔
فاطمہ جناح کو جبری شکست دینے پر صدر ایوب کے خلاف نفرت کے جذبات ابھی پروان چڑھ ہی رہے تھے کہ ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا۔ صدر ایوب نے قوم سے خطاب کیا۔ کلمہ توحید پڑھا۔ پوری قوم سے اپیل کی کہ اس کلمے پر متحد ہو جائے۔ اپنے خطاب میں یہ تاریخی فقرہ بھی کہا کہ ’’دشمن کو معلوم نہیں ہے کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘۔ پھر جنگِ ستمبر کے سترہ دن اس قوم کے یادگار سنہرے دن بن گئے۔ اُن کی رُداد لکھنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ جنگ کا اختتام معاہدہ تاشقند پر ہوا۔ بقول مادر ملت فاطمہ جناح ’’میدانِ جنگ میں شہیدوں کا لہو دے کر جو کچھ حاصل کیا گیا تھا وہ مذاکرات کی میز پر کھو دیا گیا‘‘۔ مذاکرات کے وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ ایوب خان کے خلاف نفرت انگیز تحریک ۱۹۶۶ء میں پھر جاگ اُٹھی۔ اگلے تین برس کے اندر اندر صدر ایوب کا تیا پانچا ہوگیا۔
یوں تو کوئی زمانہ اپنے زمانے میں کبھی سستا زمانہ نہیں سمجھا گیا۔ ہمیشہ پچھلا زمانہ ہی سستا زمانہ کہا گیا۔ کیا عجب کہ موجودہ زمانہ بھی اگلے زمانوں میں سستا زمانہ کہلائے۔ پس موجودہ زمانے کے لحاظ سے وہ زمانہ سستا نہیں، بہت سستا زمانہ تھا۔ پھر بھی مہنگائی سے نمٹنے کے لیے ہر گھر کے ’’راشن کارڈ‘‘ بنے ہوئے تھے۔ یہ کارڈ نہیں کتاب تھی۔ اس کے سرورق پر سربراہِ خانہ کا نام اور گھر کے تمام بالغ و نابالغ افراد کی تعداد درج ہوتی تھی۔ یہی کتاب بعض اوقات شناختی کارڈ کا کام بھی دیتی تھی۔ محلے کی کچھ دکانوں کو ’’راشن شاپ‘‘ قرار دے دیاگیا تھا۔ ان دکانوں سے قطار میں لگ کر اہلِ خانہ کے لیے فی کس مخصوص مقدار میں سرکاری نرخ پر چینی، آٹا، سوجی وغیرہ خریدی جاتی۔ جس کے گھر کے افراد زیادہ ہوتے اُن کے وارے نیارے ہوتے۔ شادی بیاہ کے لیے محکمہ خوراک کو درخواست دے کر اُسی راشن کارڈ پر زیادہ مقدار میں خریداری کی جاسکتی تھی۔ اُس دورکی مہنگائی کا اندازہ آپ حبیب جالبؔ کی مشہور تاریخی احتجاجی نظم کے ان اشعار سے کر سکتے ہیں:
بیس روپے من آٹا، اس پر بھی ہے سنّاٹا؟
گوہر، سہگل اور آدم جی بنے ہیں بِرلا ٹاٹا
ملک کے دشمن کہلاتے ہیں جب ہم کرتے ہیں فریاد
صدر ایوب زندہ باد
صدر ایوب زندہ باد
صدر ایوب کے دور میں غریب اور امیر کا معاشی تفاوت بڑھ گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صرف بائیس خاندانوں نے ترقی کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدر ایوب کے دور میں ملک میں صنعتی ترقی ہوئی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم سمیت کئی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے۔ پاکستان اسٹیل مل کی بنیاد رکھی گئی۔ ملک میں ٹیلی وژن کی نشریات شروع ہوئیں۔ سرمایہ داروں اور صنعت کاروں سے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کروائے گئے۔ داؤد انجینئرنگ کالج اور آدم جی سائنس کالج ان کی مثالیں ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار بہتر تھا۔ لہٰذا ۱۹۶۸ء میں صدر ایوب نے اپنا ’’عشرۂ ترقی‘‘ منایا۔ اِسے کچھ لوگ اُن کا ’’عشرۂ انحطاط‘‘ بھی کہتے ہیں۔ پولوگراؤنڈ کراچی (موجودہ باغِ قائد اعظم) میں ایک صنعتی نمائش لگائی گئی Decarama کے نام سے۔ دیکھنے ہم بھی گئے اور تماشا بھی ہوا۔ ہر محکمے نے اپنا اپنا اسٹال لگا رکھا تھا۔ بڑی بھاری بھاری مشینیں اور صنعتوں کے ماڈل لگائے گئے تھے۔ کھانے پینے اور چرندم خورندم کا بازار بھی لگا ہوا تھا۔ ہمیں تو اُسی سے دلچسپی تھی۔ ایک میدان میں ایک بہت بڑے اسکرین پر فلم ’’شکوہ‘‘ چل رہی تھی۔ اتنے بڑے پیمانے پر تصویروں کو (ناشائستہ) حرکت کرتے دیکھ کر ہم تو دنگ ہی رہ گئے۔ ۱۹۶۸ء ہی میں صدر ایوب کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔ وہ طلبہ جنہیں صدر ایوب نے امریکی دودھ پلا پلا کر پالا تھا ’’ایوب کتا ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ تحریک نے زور پکڑا تو نومبر ۱۹۶۸ء میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی ’’متحدہ حزبِ اختلاف‘‘ بنا کر میدان میں کود پڑیں۔ صدر ایوب کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی۔ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو کمانڈر انچیف یحییٰ خان نے صدر ایوب سے استعفا لے لیا اور مارشل لا لگا کر اقتدار سنبھال لیا۔ حالاں کہ ایوب خان خود اقتدار سے الگ ہونے کا ارادہ کر چکے تھے۔ انہوں نے ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کا مطالبہ منظور کر لیا تھا۔ ون یونٹ ختم کرنے پر اور صوبے بحال کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے اور انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا تھا۔ سیاسی مذاکرات نتیجہ خیز ہو چکے تھے۔
یہ غالباً ۱۹۷۳ء کی بات ہے۔ اسلام آباد کی سپر مارکیٹ میں کچھ طلبہ گھوم پھر رہے تھے۔ کسی نے اوور کوٹ میں ملفوف ایک وجیہ اور معمر شخصیت کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’وہ دیکھو! ایوب خان‘‘۔ لڑکوں نے انہیں گھیر لیا۔ طرح طرح کے سوالات کرنے لگے۔ ایک لڑکے نے پوچھا: ’’سر! آپ سیاست میں آکر قوم کی رہنمائی کیوں نہیں کرتے؟‘‘
وہ مُسکرائے اور بڑی شفقت سے جواب دیا۔ شفقت اُن کی مسکراہٹ میں تھی، مگر لہجے میں تلخی تھی۔ کہنے لگے:
’’بچو! ایوب کتا اب بوڑھا ہو چکا ہے‘‘۔