مارشل دوستم! افغان قیام ِ امن کے لیے دوستی ضروری ہے

440

عبدالرشید دوستم کو افغانستان حکومت نے 15جولائی 2020ء کو مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی ہے۔ مارشل دوستم کو یہ عہدہ افغان حکومت اور طالبان مذکراتی ٹیم کے سربراہ ’’عبداللہ عبداللہ‘‘ نے ایک تقریب میں دیا۔ لیکن مارشل دوستم کا کہنا ہے کہ یہ عہدہ ان کو صدر اشرف غنی اور خود ان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت دیا گیا ہے۔ اس موقع پر مارشل دوستم نے امریکا سے کہا کہ وہ افغانستان سے نکلنے میں عجلت سے کام نہ لے اور ان کو چھ ماہ کی مہلت دے تاکہ طالبان کو شکست دو چار کر سکیں جس سے افغانستان سے دہشت گردی اور دہشت گردوں دونوں کا خاتمہ ہو سکے گا۔ عبد الرشید دوستم افغانستان سے تعلق رکھنے والا جنگجو ہے جس نے سوویت اتحاد کے افغانستان پر قبضے کے بعد روس کی حمایت میں جنگ لڑی۔ ان کی ذاتی فوج ہے اور اس حوالے سے اپنے آپ کو جرنیل کہلواتے ہیں۔ طالبان حکومت کے مخالف رہے ہیں اور وہ ’’امریکا اور طالبان‘‘ معاہدے سے کچھ زیادہ خوش نہیں اور ان کا خیال ہے وہ طالبان کو شکست دے دیں گے جس کو امریکا بھاری بھرکم فوج، ’’ناٹو‘‘ کی مدد اور لاکھوں ٹن بارود کی بمباری سے بھی نہیں ہرا سکا۔ مارشل عبدالرشید دوستم کو انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے جنگی مجرم سمجھا جاتا ہے۔ 2002ء میں افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد امریکی حمایت میں جنگ لڑتے رہے ہیں اور ہر محاذ پر شکست کا زیادہ تر سامنا ہی رہا ہے۔ یہ 2014ء کے انتخابات میں افغانستان کا نائب صدر منتخب ہوا۔ مارشل عبدالرشید دوستم احمد شاہ مسعود کے ساتھ شمالی اتحاد میں رہے لیکن ان کی اپنی بھی ایک فوج ہے جس کے وہ جرنیل کہلاتے ہیں 1996ء میں طالبان کے دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے بعد احمد شاہ مسعود کے نظریہ اسلام کے مخالف کے طور پر ابھرے اور ایک مرتبہ پھر ہتھیار اٹھا لیے۔ انہوں نے شمالی اتحاد کے رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بالآخر 9 ستمبر 2001ء کو ایک خودکش حملے میں مارے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ حملہ القاعدہ نے کروایا تھا جس میں تین حملہ آور صحافیوں کی حیثیت سے آئے اور دوران انٹرویو کیمرے میں نصب بم پھٹنے سے احمد شاہ مسعود چل بسے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے احمد شاہ مسعود کو ’’قومی ہیرو‘‘ کا خطاب دیا۔ ان کی برسی کا دن یعنی 9 ستمبر افغانستان میں ’’یوم مسعود‘‘ کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ مارشل عبدالرشید دوستم سے زیادہ کون طالبان کو جانتا ہوگا ان کو اس بات کا علم اچھی طرح ہے کہ افغانستان میں لڑی جانے والی سوویت یا روسی لڑائی مجاہدین نے 9 سال تک لڑی۔ اس کا آغاز دسمبر 1979ء میں ہوا جبکہ اس کا اختتام فروری 1989ء میں ہوا۔ اس لڑائی میں ایک طرف تو افغان فوج کے نام پر روسی فوج لڑ رہی تھی تو دوسری طرف ساری دنیا کے مجاہدین روس کے خلاف برسر پیکار تھے۔ امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے امریکا اس جنگ میں کھل کر نہیں کود سکتا تھا مگر امریکا اور پاکستان نے کھل کر مجاہدین کی معاونت کی۔ اربوں ڈالر کا سرمایہ برطانیہ، امریکا، سعودی عرب، پاکستان اور دوسرے ممالک نے دیا۔ پاکستان سے ہزاروں مجاہدین روس کیخلاف لڑنے گئے۔
سویت یونین 1978ء کے ثور انقلاب کے بعد 27اپریل 1978 میں عوامی جمہوریہ افغانستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انقلابی حکومت نے افغانستان میں ایک غریب دوست اور کسان دوست سوشلسٹ معاشی ایجنڈا متعارف کرایا۔ اس حکومت کے سوویت یونین کے ساتھ قریبی روابط تھے۔ 5 دسمبر 1978 کو سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان دوستی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ سوشلزم کے بڑھتے ہوئے قدموں اور ’’گرم پانیوں‘‘ تک آنے سے روکنے کے لیے ’’جولائی میں آپریشن سائیکلون کا آغاز کیا گیا، جس کا جواب دینے کے لیے سویت یونین کے مطابق دسمبر میں افغان حکومت کی دعوت پر روس افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے افغانستان آیا۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے افغانستان پر روسی حملے کی مخالفت کی۔ خاص کر تمام اسلامی ممالک نے اس کی سخت مخالفت کی اور 34 اسلامی ممالک نے باقاعدہ قراردادیں پاس کیں اور سوویت اتحاد کی ایک اسلامی ملک (افغانستان) پر یلغار کی مخالفت کی اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک نے مطالبہ بھی کیا کہ سوویت اتحاد جلد از جلد افغانستان سے افواج واپس نکالے۔ اس علاوہ جب تک سوویت اتحاد کی افواج افغانستان میں رہیں ان کے خلاف لڑنے کے لیے بیش تر اسلامی ممالک نے افغان مجاہدین کی امداد کی۔ لیکن دنیا کو یہ معلوم ہے کہ دسمبر 1979ء سے فروری 1989ء تک چند چھوٹے ہتھیاروں سے نہتے افغان جہاد کرتے رہے اور آخر کار یہ دعویٰ کرنے والی سویت یونین (یو ایس ایس آر) کی فوج جس کاکہنا یہ تھاکہ ایک بار ’’اس کی فوج جس ملک میں داخل ہو جائے وہاں سے واپس نہیں جاتی‘‘۔ افغانستان سے ایسی گئی کہ اب دنیا کے نقشہ میں سویت یونین (یو ایس ایس آر) ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔
مارشل عبدالرشید دوستم کو یہ بات تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ 2001ء سے 2020ء تک روس اور امریکا کے ساتھ رہے ہیں۔ اس دوران ان کا اور طالبان کا آمنا سامنا تو ہوا ہی ہوگا۔ ان کو اپنی اور طالبان کی جنگی حکمت عملی کے بارے میں بھی اچھی طرح علم ہے۔ مارشل دوستم کو یہ بات معلوم ہو گی کہ امریکا نے افغانستان سے جانے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ اس کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا ہے یا امریکا جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکا یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ ایک ایسی جنگ جس کو امریکا 19سال تک بھر پور جنگی حکمت عملی سے لڑنے کی کوشش کرتا رہا لیکن نتیجہ صفر نہیں بلکہ منفی سو فی صد سے بھی نیچے ہے۔ اس سے امریکا کو کچھ نہیں ملنا۔ امریکا اور طالبان کی اس جنگ میں مارشل دوستم، اور ان کے ساتھی عبداللہ عبداللہ، اشرف غنی بھی اس کے ہم رکاب رہے ہیں۔ یہ سب آج طالبان سے جنگ کے بجائے مذاکرات کی باتیں کرہے ہیں۔ مارشل عبدالرشید دوستم کو یہ بات معلوم ہو گی کہ ’’اپنی بادشاہت کو برقرار رکھنے کے لیے شیر بھی اس راستے سے نہیںگزرتا جہاں سے چیتوں کا گزر ہوتا ہے‘‘، اس لیے مارشل عبدالرشید دوستم کو افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی طر ح جنگ کے بجائے بات چیت کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے تاکہ افغانستان میں امن کا خواب بھی پورا ہوسکے۔