آٹا بحران لے ڈوبے گا

397

مائنس ون، ٹو، ٹھری کی بازگشت فضائوں میں ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید کہتے ہیں کہ سب جائیں گے، انہوں نے ہاتھوں میں جھاڑو تھامی ہوئی ہے کہ کب اشارہ ہوا اور کب ان کی پیشگوئی پوری ہو۔ تاہم حکومت کے اہالی و موالی اڑے ہوئے ہیں کہ مائنس ون کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ جن وزرا اور معاونین کا سیاسی مستقبل صرف تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ ہے اور اس کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ خود کہیں نظر نہیں آئیں گے، وہ دوسروں کی سیاست کا سورج غروب ہونے کی اطلاعات جاری کر رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نااہلی، نالائقی اور ناتجربہ کاری کے الزامات کی زد میں ہیں اور تجزیہ کار اس پر متفق ہیں کہ 11 کروڑ عوام کا صوبہ پنجاب ایک بے کار شخص کے حوالے کر دیا گیا ہے تاہم ان کا کھونٹا مضبوط ہے۔ عمران خان عملاً پنجاب کی حکومت چلا رہے ہیں اور پوری کوشش ہے کہ عثمان بزدار کسی طرح جان پکڑ لیں۔ عثمان بزدار کی شکایت پر پنجاب کے 5 چیف سیکریٹرریز بدل ڈالے اور 4 آئی جی پولیس کا تبادلہ کر دیا۔ بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ ہو گئی۔ اب ایک بار پھر عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ان کا وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہا۔ خود وسیم اکرم آج کل کپڑے دھونے کا صابن بیچ رہا ہے اور رگڑا و تگڑا کا مقابلہ کروا رہا ہے۔ نقلی وسیم اکرم رگڑے کھا رہا ہے۔ پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصہ اپنے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان پر لگا دیا ہے۔ عثمان بزدار کا نام شوگر کمیشن کی رپورٹ میں بھی آیا ہے اور فی الوقت وہ پنجاب میں آٹا بحران سے نمٹنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ لاہور سمیت کئی شہروں میں آٹا مل ہی نہیں رہا۔ گندم ایسے وقت میں درآمد کی جا رہی ہے جب نئی فصل بازاروں میں آگئی ہے۔ ایک زرعی ملک گندم درآمد کرے تو یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ عمران خان اور ان کے درباری حزب اختلاف سے محاذ آرائی ہی اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ شہزاد اکبر نام کے ایک معاون خصوصی نے فرمایا ہے کہ 149 فلور ملز گندم چوری میں ملوث ہیں۔ شوگر مل مالکان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وہ تو جب ہوگی تب ہوگی لیکن اس وقت تو نیا بحران گندم اور آٹے کا ہے۔ کیا یہ اطلاع فراہم کرنے سے گندم کی کمی پوری ہو جائے گی کہ کتنے فلور ملز گندم کی چوری میں ملوث ہیں۔ حکومت کا کام یہ بتانا نہیں بلکہ چوروں کو پکڑ کر انہیں سزا دلوانا ہے۔ اب کہیں گندم کے چور بھی عدالتوں میں جا کر اسٹے آرڈر نہ لے آئیں۔ حکومت آٹا بحران کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی، ویسے تو کسی بھی معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ حکومت عوام کو فوڈ سیکورٹی دینے میں ناکام ہو گئی۔ لیکن حکومت نے کس چیز کی سیکورٹی دی ہے؟ بس سیکورٹی وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے ہے کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔ چینی کے بحران پر تحقیقاتی کمیشن اور اس کی رپورٹ عام کرکے حکمرانوں کا ٹولہ سینہ پھلائے پھر رہا ہے کہ دیکھو، پہلی بار یہ ہوا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ عام کر دی ورنہ سابقہ حکومتیں تو رپورٹیں دبا کر بیٹھ گئی تھیں۔ بالکل بجا فرمایا لیکن کمیشن کی رپورٹ کو عوام کیا چاٹیں گے یا پانی میں گھول کر پی جائیں گے۔ جب سے یہ رپورٹ عام ہوئی ہے تب سے چینی کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں۔ شہزاد اکبر پھر گزشتہ 11 سال کا رونا لے کر بیٹھ گئے کہ اس عرصے میں شوگر مافیا عدالتوں سے اسٹے آرڈر لیتی رہی ہے، ہم یہ اسٹے آرڈر یا حکم امتناع ایک ایک کرکے ختم کروا رہے ہیں۔ عوام کو تو یہ بتائیں کہ 54 روپے سے 80 اور 90 روپے کلو تک پہنچنے والی چینی کی قیمت کب اس سطح پر آئے گی کہ عام آدمی بھی خرید سکے۔