حکومت کا تعمیراتی شعبے کو پیکیج

296

تعمیراتی شعبے کا نام سنتے ہی ذہن میں تعمیراتی کام آنے لگتے ہیں ایک بڑا سا پلاٹ ہے ایک طرف ریت اور بجری کا ڈھیر لگا ہوا ہے ساتھ میں چھت اور پلرز میں لوہے کا جال بنانے والے مزدور لوہا کاٹ کر باریک تاروں کے ذریعے جال بنا رہے ہیں اگر پلاٹ کی فائونڈیشن بن چکی ہے تو اس پر پانی ڈالا جارہا ہے شٹرنگ ڈالنے کی کھٹ کھٹ دور تک سنائی دے رہی ہے، سیمنٹ اور بجری کے مصالحے میں پانی ملا کر دیواروں کی تعمیر کی تیاری ہورہی ہے مزدور اپنی اپنی زبانوں میں باتوں اور خوش گپیوں میں مصروف ہیں جب کہ کچھ مزدور کی ٹولی کی شکل میں چائے نوشی میں مصروف ہے۔ یوں تو تعمیراتی کاموں میں سڑکیں، پل، پارک اور ہر قسم کی عمارتوں کی تعمیر شامل ہے لیکن اس میں سب سے بڑا حصہ رہائشی مکانوں کی تعمیر کا ہے۔ رہائش انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ازل سے انسان کو ایسی جگہ کی ضرورت رہی ہے جہاں وہ سردی گرمی اور بارش سے محفوظ رہے اور جو اس کی جمع پونجی ہے وہ چوروں، ڈاکوئوں کے ہاتھ نہ لگے۔ اس لیے انسان شروع شروع میں غاروں میں رہا کرتا تھا اور آج کی اکیسویں صدی میں رہائش کے لیے جدید ترین شکلیں نکل آئی ہیں۔
ملکی معیشت میں تعمیراتی سرگرمیوں کی بڑی اہمیت ہے پاکستان کی مجموعی معیشت میں تعمیراتی شعبہ کا حصہ 2.5 فی صد ہے اور ملکی لیبر فورس کا 7.3 فی صد حصہ اسی شعبہ سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے شہروں کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی شرح 2.7 فی صد ہے اس لحاظ سے ورلڈ بینک کے مطابق ہر سال 4 لاکھ گھروں کی ضرورت ہے جب کہ تعمیراتی گھروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اسی وجہ سے ہر شہر میں کچی آبادیوں کا جنگل لگ رہا ہے جہاں غریب اور مجبور افراد غیر انسانی حالات میں رہائش پزیر ہیں اور ان آبادیوں کے باعث پورے شہر میں پانی، بجلی، گیس اور نکاسی آب کے مسائل شدید تر ہوتے جارہے ہیں کیوں کہ کچی آبادیوں کو بنانے میں بھی ایک مافیا کام کررہا ہے جو غیر قانونی جگہوں پر بیرون شہر سے آنے والوں کو بسا دیتا ہے اور مختلف اداروں سے سازباز کرکے بجلی، پانی اور گیس کے کنکشن دلوا دیتا ہے اور ناجائز کنکشن کی وجہ سے ان یوٹیلیز کی تقسیم کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔
رہائشی مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت نے نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ کے نام ایک ملک گیر منصوبہ شروع کیا ہے جس کا اعلان کورونا وائرس کی فضا میں عمران خان نے اپریل میں کیا تھا اور تعمیراتی شعبے کے لیے مختلف مراعات کا اعلان کیا تھا اس میں تعمیراتی شعبے میں استعمال ہونے والے مٹیریل مثلاً سیمنٹ اور اسٹیل وغیرہ کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں رعایتیں شامل ہیں۔ دوسرے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدنی کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا اور سہولت دسمبر 2020ء تک محدود ہے۔ حال ہی میں اس پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کا اعلان کیا گیا ہے جس میں ایک لاکھ گھروں کی تعمیر کی جائے گی اور اس میں 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی یعنی فی گھر ایک خاندان کو 3 لاکھ روپے کی رعایت ملے گی باقی رقم بینک کے قرضوں سے پوری ہوگی۔ اس سلسلے میں کمرشل بینکوں کو پابند کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے مجموعی قرضوں کی رقم میں سے 5 فی صد ہائوسنگ کے شعبے کے لیے مختص کردیں۔ مکان 5 مرلہ اور 10 مرلہ کا ہوگا جو خاندان 5 مرلہ کا مکان لیں گے اُن کو بینک کے قرضے پر 5 فی صد سود ادا کرنا ہوگا جب کہ 10 مرلے والوں کے لیے سود کی شرح 7 فی صد ہے۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے وزیراعظم عمران خان کاروباری حضرات، بلڈرز، ڈیویلپرز اور دوسرے متعلقہ لوگوں سے میٹنگیں کررہے ہیں۔ ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر وزیراعظم کو اپ ڈیٹ کرتی رہے گی۔
اس منصوبے کی ایک اہم بات تو کمرشل بینکوں کی طرف سے قرضوں کی فراہمی ہے۔ پاکستان میں اب تک بینکوں کی طرف سے ہائوس فنانسنگ نہ ہونے کے برابر ہے وہ سرکاری تمسکات یا سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں ان کو اس طرف کم شرح سود پر لانا ایک چیلنج ہے۔ دوسری بات ہائوسنگ پروجیکٹس کے لیے جگہ کا تعین ہے اگر یہ پروجیکٹس دور دراز بے آب و گیاہ میدانوں میں بنادیے گئے تو ناکام ہوجائیں گے تیسرا معاملہ تعمیراتی کوالٹی کا ہے۔ کراچی ہی میں کئی عمارتیں غیر معیاری تعمیر کی وجہ سے گرچکی ہیں جس میں اموات بھی ہوئی ہیں اور لوگوں کا سامان تباہ ہوگیا۔ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔