طالبان بھارت تعلقات سے پاکستان کو نقصان کا خدشہ؟

625

غیر سرکاری افراد کی مدد سے امریکی حکام نے 2جولائی کو یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کو ایک ایسے بینک ڈیٹا کا پتا چلا جس کی مدد سے روس نے طالبان کو بھاری رقم صرف اس لیے فراہم کی تاکہ وہ امریکی اور ناٹو فورسز کو قتل کریں۔ نیویارک ٹائم بھی اسی طرح کی خبریں دیتا رہا ہے کہ روسی خفیہ ایجنسی کے اکائونٹ سے طالبان کو رقم دے جاتی رہی ہے اور یہ سب کچھ امریکی صدر کی روزآنہ کی بریفنگ میں بھی شامل ہے لیکن صدرِ امریکا نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے سربراہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ ٰ حکام پہلے بھی ترید کرتے رہے ہیں لیکن عالمی اور خاص طور پر امریکی میڈیا اس خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں مصروف ہے جس سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ طالبان کی کامیابی صرف اللہ کی مرضی اور جہاد کی مرہون ِ منت نہیں۔ امریکا کی شکست کے بارے میں سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن مرحوم نے 2008ء میں اعلان کیا تھا کہ امریکا افغانستان سے رخصت ہونے کے لیے ’’محفوظ راہداری‘‘ کی تلاش میں ہے، اسی کے لیے طالبان سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہا اس وقت پاکستان میں اس بات کو دیوانے کا خواب بتایا جارہا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ امریکا اور اس کے پاکستانی حمایتی زمینی حقائق سے یکسر ناواقف تھے۔ دنیا بھر میں تاریخ کے طالب علم کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ افغانستان میں ’’سُپر پاورز‘‘ کی شکست کوئی خاص بات نہیں ہے۔ اسکندر اعظم سے لے کر امریکا تک دنیا کی چار بڑی ’’سُپر پاورز‘‘ کو ذلت سے رخصت ہونا پڑا اور اس کے بعد یہ ’’سُپر پاورز‘‘ دنیا میں اپنا توازن برقرار رکھنے میں یکسر ناکام اور نامراد رہی ہیں۔ امریکا 1974ء میں بھی ویتنام سے شکست کھا کر وہاں سے نکلا لیکن آج بھی وہ ایشیا پیسیفک کی ایک ’’بڑی قوت‘‘ ہے لیکن سابق یو ایس ایس آر اور تاج برطانیہ آج دنیا میں وہ مقام نہیں رکھتے جو ان کا افغانستان پر حملے سے قبل تھا۔ دنیا بھر میں 57سے زائد اسلامی ممالک ہیں لیکن گزشتہ 100برسوں میں مسلمانوں کے لیے ’’ٹھنڈی ہوا کے جھونکے صرف افغانستان سے آتے ہیں‘‘۔ افغانستان سے آنے والی ٹھنڈی ہوا نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشی اور مسرت کا پیغام دیا ہے۔
امریکی اور یورپی میڈیا کو اسی بات کی فکر ہے اگر مسلمانوں نے جہاد کی گرمی سے ٹھنڈی ہوا حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی تو پھر ان کے جھوٹ اور شیطان کی رضا کا کیا بنے گا۔ طالبان کے ترجمان نے اس طرح کی خبروں تردید کی ہے کہ اس کو امریکا اور ناٹو فورسز پر حملے کے لیے روس سے رقم لینے کی ضرورت تھی۔ جس کے بعد امریکی حکام نے 2جولائی کو یہ کہہ کر بات کو ختم کرنے کی کوشش کی کہ اس طرح کے اقدامات جرائم میں ملوث افراد اپنے آپ کو طالبان ظاہر کر کے بھی کر سکتے ہیں لیکن ان کی رپورٹ درست ہے۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں قبل ازیں وہ افغانستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ اور ایک ایسے موقع پر امریکا میں اس طرح کی باتوں کا آخر کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ زلمے خلیل زاد 10مئی 2020 کو بھارت میں تھے اور انہوں اس اس وقت ’دی ہندو‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات کرنی چاہیے۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ کسی امریکی اہلکار نے بھارت کو طالبان کے ساتھ بات چیت کا مشورہ دیا ہو۔ بھارت خطے میں وہ واحد ملک ہے، جس کے طالبان کے ساتھ باضابطہ رابطے نہیں ہیں۔ اگرچہ افغانستان میں طالبان کے دور میں چین، ایران اور روس نے بھی اْن کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا تاہم اب تینوں ممالک طالبان کے ساتھ نہ صرف رابطے میں ہیں بلکہ روس نے تو افغان امن عمل کے سلسلے میں نومبر 2018 میں بین الافغان کانفرنس کی میزبانی بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک بھی طالبان کے مسلسل رابطے میں ہیں۔
بھارت نے پچھلے 20 برس میں افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے اور افغانستان نے بھی بھارت کے ساتھ اپنی دوستی کو ہر ممکن طور برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ کابل میں بھارتی سفارت خانے کے مطابق اب تک بھارت افغانستان میں دو ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ نئی دہلی اور کابل کی
دوستی اس لیے بھی مضبوط ہوتی گئی کہ دونوں اسلام آباد پر طالبان اور کشمیر میں لڑنے والے جنگجووں کی مدد کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں جن کے باعث اب تک بھارت نے طالبان کے ساتھ رابطہ نہیں رکھا۔ ایک طالبان کا پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات یا پھر پشت پناہی کا الزام اور دوسری طالبان کی کشمیر میں بھارت کے خلاف لڑنے والے جنگجووں کی حمایت ہیں۔ 2001 میں طالبان دور کے خاتمے کے ساتھ ہی بھارت نے افغانستان میں پانچ سال کے بعد اپنا سفارتی عملہ بھیجا تھا۔
2001ء کے بعد بھارت اور افغانستان کے ’تعلقات‘ ایک بار پھر تیزی سے بڑھتے گئے اس کے ساتھ پاکستان کی تشویش میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ پاکستان کو اس پر تشویش ہے کہ بھارت آخر کیوں افغانستان میں اربوں کی سرمایہ کاری کررہا ہے اور افغان حکومت کو بھارت سے زیادہ پاکستان کے قریب ہونا چاہیے۔ پاکستان کی یہ تشویش درست تھی کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا مرکز افغانستان رہا ہے۔ 2001ء میں امریکا کے افغانستان کے قبضہ میں پاکستان کے 100 فی صد حصے کے باوجود بھارت کو علاقے کا لیڈر بنانے کے لیے افغانستان کی تعمیر وترقی میں اہم کردار دیا گیا۔
پاکستان کو اس پر سخت تشویش تھی لیکن اس کے جواب میں افغانستان کا موقف تھا کہ افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اْن کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات پر پاکستان کے تحفظات کا کوئی حق نہیں بنتا۔ پاکستان کا الزام ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ساتھ بلوچ مزاحمت کار بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
یورپی، بھارتی میڈیا کا مئی میں کہنا تھا کہ پاکستان یہ سوچتا ہے کہ افغانستان میں طالبان پاکستان کے مفادات کا دفاع کریں گے تو یہ پاکستان کی بڑی بھول ہوگی۔ اْن کے مطابق طالبان نے مجبوری کے عالم میں پاکستان میں پناہ لی تھی اور جوں جوں وہ واپس افغانستان کے مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں گے، اْن کا پاکستان پر انحصار کم ہوتا جائے گا۔
مئی 2020ء میں پاکستان اور طالبان کے بارے میں اس طرح کی باتیں ہو رہی تھیں، افغان طالبان نے اسی دوران ایک بیان قطر سے جاری کیا اور کہا کہ ’’بھارت 40 سال سے ہمارے ساتھ غداری کر رہا ہے‘‘ اس کے بعد طالبان نے ایک لمبی فہرست جاری کی جس میں اس نے بتایا کہ ’’شاہ ظاہر شاہ، سردار داؤد، نور محمد ترکیٔ، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل، حاجی محمد چمکنی، محمد نجیب اللہ کے دور میں بھارت افغانستان اور اس کے عوام کا سخت دشمن اور افغان عوام کے قاتلوں کا حامی و مددگار رہا ہے اس لیے اس کو اسی انداز سے دیکھا جائے گا۔
اس صورتحال نے پورے بھارتی اور مغربی میڈیا کے تجزیہ کاروں کو رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا اور اب زلمے خلیل زاد کے اس انٹرویو کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ زلمے خلیل زاد کے پاس بہت سارے مسائل اور بھی ہوں گے لیکن شاید بھارت اور طالبان کے درمیان تعلقات بھی ایجنڈے میں شامل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اس طرح کی ہمدردیوں سے دور رہے۔ پرویز مشرف نے جس انداز سے افغانستان پر امریکی حملے کے لیے راستہ ہموار کیا اس کی پاکستان کو ’’بہت بڑی قیمت چکانی پڑی اور اگر آج طالبان بھارت تعلقات کے لیے پاکستان نے سرگرمی دکھائی تواس صورت میں پاکستان ہی کے نقصان کا خدشہ ہے۔