غیرملکی مشیر اوربے خوف بزدار

415

پاکستانی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک ہی دن میں ان لوگوں کے بارے میں معلوم ہوگیا جو ملک چلا رہے ہیں۔ عدالت تو بار بار استفسار کر کے اور ریمارکس دے کر خاموش ہو گئی کہ ملک کون چلا رہا ہے۔ حکومت کے وزرا یا معاونین خصوصی۔ معاصر اخبار جنگ کی خبر کے مطابق وزیراعظم کے سات معاونین خصوصی دوہری شہریت کے حامل ہیں ان لوگوں کے اثاثوں کی تفصیل بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر سب سے امیر آدمی ہیں۔ ان کے اثاثے دو ارب 75 کروڑ روپے ہیں۔ ثانیہ شاہد عیدروس کینیڈا کی شہریت رکھتی ہیں۔ ان کے پاس سنگاپور کی بھی شہریت ہے۔ ندیم بابر، شہباز گل اور معید یوسف امریکی ہیں۔ ندیم افضل حسین بھی کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں اور وزیراعظم کے دوست زلفی بخاری برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔ وہ لندن میں 48 لاکھ 50 ہزار پائونڈ کی جائداد کے مالک ہیں۔ بیرون ملک 5 کمپنیوں میں اس کے شیئرز ہیں۔ عاصم سلیم باجوہ کی تقسیم بڑی خوبصورت ہے کہیں الگ سے بہت بڑی رقم یا قدر نظر نہیں آتی بس 15 کروڑ روپے کے مالک ہیں۔ صرف سات کروڑ کا فارم ہائوس ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں 5 پلاٹ ہیں۔ رحیم یار خان اور بہاولپور میں 65 ایکڑ اراضی کے مالک ہیں۔ کرپشن کے خلاف کام کرنے کے دعویدار وزیراعظم کے ایک مشیر شہزاد قاسم بھی ہیں جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان کے دبئی میں تین گھر ہیں۔ ان تین گھروں کی مالیت اتنی تو ہوگی کہ پاکستان میں تین سو غریبوں کو دو دو کمروں کے گھر دیے جا سکیں۔ امریکا میں ان کی 8 لاکھ 65 ہزار ڈالر کی جائداد ہے اور ان کے امریکی بینک اکائونٹ میں 21 لاکھ ڈالر ہیں۔ ان کی گاڑیوں کی مالیت بھی 3 لاکھ 55 ہزار درہم ہے۔ یہ صرف سات معاونین خصوصی کی کہانی ہے۔ عدالت کا استفسار بجا ہے کہ لگتا ہے کہ ملک کے معاملات معاونین خصوصی چلا رہے ہیں۔ جن لوگوں کے سارے اثاثے بیرون ملک، پیسے باہر، مکانات باہر، جائدادیں باہر۔ ان کو ملک سے کیا دلچسپی ہوگی۔ یہ تو حکومت ختم ہوتے ہی اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے جائیں گے۔ حیرت ہے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سے تو پوچھا جا رہا ہے کہ انہوں نے بیرون ملک جائداد کیسے حاصل کی لیکن پورے ملک کے نظام پر کنٹرول رکھنے والے مشیران خصوصی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو رہی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پھر وزرا کیا کر رہے ہیں۔ اس کے بارے میں تازہ ترین اجلاس ہوا ہے جس میں وزیراعظم نے بڑے دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ ایک تو انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ کرپشن ختم نہیں ہو رہی ہے اس لیے بزدار ہی وزیراعلیٰ رہیں گے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی بہترین ہے۔ وزیراعلیٰ بے خوف ہو کر کام کریں۔ کوئی عمران خان کو بتائے کہ وزیراعلیٰ بزدار اب تک بے خوف ہو کر ہی کام کر رہے تھے۔ انہوں نے بے خوف ہو کر ہی چینی، آٹا مافیائوں اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو تحفظ دیا۔ وہ تو وزیراعظم سے بھی زیادہ بے خوف ہیں کیونکہ انہیں اپنی پشت پر وزیراعظم کا ہاتھ محسوس ہوتا ہے اور وزیراعظم کھل کر ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی پشت پر جو لوگ ہیں وہ تو صرف شروع میں بولے تھے کہ چھ ماہ تک سب اچھا لکھو۔ چھ ماہ ختم ہو گئے یا نہیں بلکہ شروع بھی ہوئے کہ نہیں یہ بتائے بغیر وہ صاحب چلے گئے۔ وزیراعظم اپنے معاونین خصوصی کی فوج لیے بیٹھے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کو کہہ رہے ہیں کہ بے خوف ہو کر کام کریں لیکن اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ پنجاب کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ صوبے کو 50 سال پیچھے لے جایا گیا ہے۔ صحت و تعلیم کا بجٹ ختم کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے جس اجلاس میں بزدار کو بے خوف ہو کر کام کرنے کی ہلہ شیری دی اسی اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ تین چار ماہ میں اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں سسٹم ترقی نہیں ہونے دیتا۔ اس اعتراف پر حیران ہوا جائے یا ماتم کیا جائے۔ وزیراعظم خود اعتراف کر رہے ہیں کہ انہیں تین چار ماہ میں اندازہ ہوا لیکن وہ تین چار ماہ سے تو وزیراعظم نہیں۔ دو برس میں تو ایوان اقتدار کے ملازمین کی گفتگو اور چال ڈھال سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ معاملات کس طرف جا رہے ہیں۔ بیورو کریسی کے انداز کار سے پتا چل جاتا ہے کہ رکاوٹیں کہاں ہیں اگر انہیں یہ پتا چلا ہے کہ سسٹم رکاوٹ ہے تو سسٹم کے سامنے بے بس ہو جانے والے وزیراعلیٰ کو بے خوف ہو کا کرم کرنے کی ہدایت کیوں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم یا حکومت کا کام یہ سوال کرنا نہیں ہوتا کہ ادارے کیا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کا کام یہ بھی نہیں کہ کمنٹری کریں کہ نچلی سطح پر کرپشن ہو رہی ہے۔ وزیراعظم اور حکومت کا کام کرپشن روکنا ہے اداروں کو ٹھیک کرنا ہے۔ لیکن وہ تو خود پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ادارے کیا کر رہے ہیں۔ اس بے بس حکومت کے وجود کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ دراصل ملک کا سارا نظام معاونین خصوصی چلا رہے ہیں اس لیے وزیراعلیٰ کو بے خوف ہو کر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ویسے مرکز پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں پی ٹی آئی نے اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اب تک بے خوف ہو کر ہی سارے کام کیے ہیں۔ خوف تو صرف بھارتی فوج سے ہے۔ یا امریکا و چین سے۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں اور اہم پوزیشنوں پر لوگ کہاں سے آرہے ہیں۔ پی آئی اے میں سربراہ کہاں سے آیا ہے۔ سات مشیروں کا شور تو بہت مچتا ہے یہ تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔