قومی اسمبلی کے اجلاس کا منظر

359

غالباً جولائی اگست 2006 کے دن تھے اور حکومت روشن خیال پالیسی زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنے پر تلی ہوئی تھی ایوان صدر میں جنرل مشرف براجمان تھے اور ایوان وزیر اعظم شوکت عزیز کے لیے سجا ہوا تھا‘ چودھری شجاعت حسین حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کے صدر اور پارلیمانی لیڈر تھے حکومت نے اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل کا مسودہ پیش کیا‘ متحدہ مجلس عمل حزب اختلاف میں تھی‘ مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے‘ ہر قائد حزب اختلاف کو اسمبلی میں وفاقی وزیر جیسی مراعات ملتی ہیں اور اسمبلی میں خطاب کے لیے وزیر اعظم کی طرح لامحدود وقت‘ اسپیکر اسمبلی کی جانب سے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی، وہ چاہیں تو کسی موضوع پر مہینہ بھر خطاب کر سکتے ہیں، اس کے بر عکس اسمبلی میں ہر رکن کے لیے صرف پانچ منٹ اور پالیمانی لیڈرز کے لیے کم از کم دس منٹ اور زیادہ سے زیادہ بیس یا پچیس منٹ اظہار خیال کے لیے دیے جاتے ہیں۔
تحفظ حقوق نسواں بل کو حدود آرڈیننس بھی کہا جاتا ہے صدر مشرف نے پہلے اسے آرڈیننس کی صورت میں نافذ کیا‘ اور بعد میں اسمبلی میں بل کا مسودہ پیش کردیا گیا۔ یہ وہی دن جب صدر مشرف ملک کی سڑکوں پر میراتھن ریس کرایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جنہیں یہ دوڑ پسند نہیں وہ اپنے ٹی وی بند رکھیں تحفظِ نسواں بل، مدو جذر سے گزرا‘ نشیب و فراز کے سائے میں اسمبلی سے منظور ہوا، اس بل کے خلاف متحدہ مجلس عمل جزوی طور پر احتجاج کرسکی تھی کہ قائد حزب اختلاف کسی حد تک حکومت کے نکتہ نظر کے ہامی تھے قومی اسمبلی نے 15 نومبر 2006 کو منظور کیا تھا، یہ دراصل پاکستان میں عصمت دری اور زناکاری کی سزا پر قابو پانے والے 1979 کے حدود قوانین میں ترمیم کا نیا ایڈیشن تھا حکومت کا موقف تھا کہ ضیاء دور کے قانون کے مطابق عصمت دری کے الزام کو ثابت کرنا غیر معمولی مشکل اور خطرناک بنا دیا گیا ہے، اور اس بل کے نتیجے میں ہزاروں خواتین کو قید کردیا گیا ہے لہٰذا حکومت نے حدود سے متعلق نئے قوانین متعارف کرائے اورکوڑے مارنے اور سزائے موت کو ختم کردیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی کے ارکان سراپا احتجاج ہوئے اور یہ قانون پاس ہوجانے کے بعد چودھری شجاعت حسین نے پیش کش کی تھی کہ اگر 31 دسمبر تک اس بل کو غیر اسلامی ثابت کردیا جائے تو وہ حکومت سے استعفا دے دیں گے۔ اس بل کے لیے حکومت نے مولانا تقی عثمانی جیسے علماء سے رائے لی تھی‘ اس کے بعد ہی بل اسمبلی سے منظور کرایا گیا‘ اور عدالت عظمیٰ نے اس بنیاد پر اس بل کو کالعدم قرار نہیں دیا ہے کہ یہ پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہے، لہٰذا یہ قانون آج تک موجود ہے۔ تاہم 2010 میں وفاقی شرعی عدالت نے اس بل میں متعدد شقوں کو شریعت سے منسوب کیا گیا تھا‘ کالعدم قرار دے دیا مگر قانون کو نہیں چھیڑا گیا، اس بل میں وہ سب کچھ موجود ہے جسے دینی جماعتیں آج بھی قابل اعتراض سمجھتی ہیں‘ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ بل مسلم لیگ(ق) حکومت نے علماء کی رائے لینے کے بعد منظور کیا تھا اور چودھری شجاعت حسین کی پیش کش کا اسمبلی میں کسی جماعت نے جواب نہیں دیا اور نہ چیلنج قبول کیا۔
آج جو بھی‘ جس شکل میں بھی حدود قوانین ملک میں نافذ ہیں یہ سب 2006 میں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے منظور کیے تھے‘ ہمارے ہاں ایک مسئلہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور دینی جماعتیں‘ اسمبلی میں کچھ اور اسمبلی سے باہر کچھ دوسرا موقف رکھتی ہیں‘ ملک کی لبرل سیاسی جماعتیں‘ جن میں مسلم لیگ‘ پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ اے این پی اور دیگر قوم پرست جماعتیں سب‘ ایک پلڑے میں ہیں اور دینی جماعتیں باہم تقسیم ہیں۔ اسمبلی میں جو بھی بات ہوگی وہاں دلیل اور ووٹ سے فیصلہ ہوگا‘ اگر دینی جماعتیں چاہتی ہیں کہ انہیں اسمبلی میں اہمیت ملے‘ ان کی بات سنی اور مانی جائے تو انہیں پارلیمنٹ کے فورم پر بے دلی سے نہیں جرأت سے بات کرنا ہوگی۔ مغرب کیا سوچتا ہے‘ امریکا کیا کہے گا‘ عالمی بینک کا ردعمل کیا ہوگا‘ قرض دینے والے ادارے کتنا ناراض ہوں گے یہ سب کچھ دل سے نکالنا ہوگا‘ ہاں اگر امریکا بھی جانا ہے یورپ کی دہلیز پر بھی پائوں رکھنا ہے، عالمی این جی اورز کو بھی ناراض نہیں کرنا اور عالمی اداروں سے بھی نہیں پنگا لینا تو پھر وہی ہوگا اور ہوتا رہے گا۔