یورپی یونین کا بھارت سے آزاد تجارتی معاہدہ نہ ہوسکا

535

مسلمانوں پر بھارت میں حکومت کے مظالم کی وجہ سے ’’یورپی یونین بھارت آزاد تجارتی معاہدہ‘‘ نہ ہوسکا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن کی صدارت میں 15جولائی بدھ کو بھارت اور یورپی یونین درمیان ہو نے والے اہم ویڈیو لنک اجلاس میں یورپی یونین کی جانب سے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مظالم، بھارت میں منظور شدہ متنازع شہریت ترمیمی قانون 2019 کے خلاف ہونے والے مظاہرے جیسے متنازع امور پر بھی بات چیت ہوئی جس کے بعد یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ جے شنکر کو اجلاس کے دوران اپنا فیصلہ سناتے ہو ئے کہا کہ ’’بھارت اور یورپی یونین کے درمیان دوطرفہ آزاد تجارتی معاہدے نہیں ہو سکتا‘‘۔ یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے کہا کہ اب دنیا میں طاقت کے ڈائنامکس بدل گئے ہیں، یورپی یونین ایشیا اور پوری دنیا میں ایک زیادہ مضبوط رول ادا کرنا چاہتی ہے۔ اس سے یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ بھارت اور یورپی یونین کے درمیان چین بھی موجود ہے۔ اس اجلاس میں بھارتی دفاع کے شعبے میں تعاون سے لے کر کویڈ 19 وبا سے مقابلہ کرنے، صحت کی دیکھ بھال اور بچہ مزدوری کا خاتمہ، ماحولیاتی تبدیلی نیز قابل تجدید توانائی اور انسانی حقوق سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یورپی یونین تجارت اور سرمایہ کاری کے موضوع پر اعلیٰ سطحی وزارتی مذاکرات کے لیے متفق ہوگئے ہیں تاہم ایک طویل عرصے سے زیر التوا آزاد تجارت کے معاہدہ کے لیے وقت کے تعین پر متفق نہیں ہوسکے۔ بھارت اور یورپی یونین کے درمیان بدھ 15جولائی 2020ء کی شام ہونے والی آن لائن میٹنگ میں فریقین نے تجارت اور سرمایہ کاری پر ’’اعلیٰ سطحی مذاکرات‘‘ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ میٹنگ کی قیادت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کی۔ میٹنگ کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے ’’اعلیٰ سطحی مذاکرات کا مقصد تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق معاہدوں میں ترقی کو مزید مستحکم کرنا، تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، دونوں طرف کے تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لیے حالات کو بہتر بنانا ہے‘‘۔ میٹنگ کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان پرکاش سوروپ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے وزرائے تجارت ایک وسیع تجارتی معاہدہ پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے رضا مند ہوگئے ہیں اور اعلیٰ سطحی مذاکرات اسی عمل کا حصہ ہوگا۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا ’’اس کے لیے کوئی وقت معین نہیں کیا گیا ہے… فریقین حتی الامکان جلد از جلد ملاقات کرنے پر متفق تھے‘‘۔ یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن کا کہنا تھا ’’دنیا کی بڑی جمہوریتوں کی حیثیت سے یورپی یونین اور بھارت کو موثر تکثریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق پر مبنی ہمارے مشترکہ مفادات کے فروغ اور تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مل کرکام کرنا چاہیے‘‘۔
اس سلسلے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ یورپی
یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں کے درمیان 2018-19 میں 115.6 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تھی۔ اگر بھارت اور یورپی یونین کے درمیان ’’آزاد تجارت، معاہدہ‘‘ ہو جائے تو دو طرفہ تجارتی حجم 300ارب ڈالر سے تجاویز کرسکتا ہے بھارت اور یورپی یونین 2007ء سے ایک وسیع تر تجارتی اور سرمایہ کاری معاہدہ (بی ٹی آئی اے) کے لیے بات چیت کررہے ہیں تاہم یہ بات چیت ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ دونوں کے درمیان متعدد امور پر اختلافات ہیں جن میں کاروں اور شراب پر بھارت کی طرف سے عائد کیا جانے والا محصول اور یورپی لیبر مارکیٹ میں بھارتی پروفیشنلز کی رسائی پر یورپی یونین کی جانب سے عائد پابندیاں شامل ہیں۔ یہ مذاکرات 2013 سے تعطل کا شکار ہیں۔ متنازع شہریت ترمیمی قانون پر یورپی پارلیمان میں بھی بحث ہونی تھی تاہم یہ ملتوی کردی گئی۔ یورپی رہنمائوں نے اس قانون کو مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی اور بھارت کی سیکولر قدروں کے منافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے نمٹنے میں پولیس اور انتظامیہ کے کردار پر بھی نکتہ چینی کی تھی۔ خیال رہے کہ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔ مظاہروں کا سلسلہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون نافذ کرنے تک جاری رہا۔ ان مظاہروں میں شامل ہونے کے الزام میں بہت سے افراد اس وقت بھی جیلوں میں بند ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ وہ بھارت اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کو مزید گہرا اور وسیع بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا ’’بھارت اور یورپی یونین فطری پارٹنر ہیں۔ ہماری پارٹنر شپ دنیا میں امن و استحکام کے لیے بھی کارآمد ہے۔ ہم دونوں عالمگیر اقدار مثلاً جمہوریت، تکثیریت، شمولیت، بین الاقوامی اداروں کا احترام، کثیر الجہتی، آزادی، شفافیت پر ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہیں‘‘۔ بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے بعد اقتصادی شعبے میں عالمی سطح پر نئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لیے جمہوری ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔ اجلاس کے ختم ہوتے ہی بھارتی وزیر خارجہ نے فوری طور پر اپنے امریکی ہم منصب سے مائیک پومپیو سے رابطہ کیا اور اجلاس کی صورتحال سے آگاہ کیا جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن سے ملاقات کے لیے یورپ کے دورے پر روآنہ ہو گئے جہاں وہ یورپی یونین کو اس بات پر راضی کریں گے وہ بھارت آزاد تجارتی معاہدہ کرے تاکہ ایران بھارت تجارتی اور اقتصادی رابطوں کے ختم ہونے کا کچھ ازالہ کیا جاسکے۔
15جولائی بھارت کے لیے ’’تجارتی اور اقتصادی یوم سیاہ‘‘ بن گیا ہے۔ اس دن بھارت اور ایران اور یورپی یونین سے بھارت کا تجارتی میں فاصلے بڑھ گئے ہیں بھارتی اخبارات ایران سے بھارت کے تجارتی تعلقات کے خاتمے کے بارے میں گلا پھاڑ پھاڑ چیخ رہے تھے کہ ایران ایک مسلمان ملک ہے اسی لیے اس نے بھارت کو دھوکا دیا۔ بھارتی میڈیا اب اس بات کی کھوج لگائے کہ کہیں ایسا تو نہیں ’’یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن‘‘ کا تعلق دُور پرے جاکر کسی مسلمان یا پاکستان تو سے نہیں مل رہا ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ ’’برے وقت میں اپنا سایہ بھی دُور جاکر کھڑا ہو جاتا ہے‘‘۔