روشن تیرا نام منور

450

جمعہ 26جون کی دوپہر میں اپنے بیٹے عبید کا انتظار کررہا تھا کہ وہ آئے تو اس کے ساتھ نماز جمعہ کے لیے جائوں۔ عبید نے آتے ہی اطلاع دی کے منور صاحب کا انتقال ہو گیا ہے دن کے وقت عموماً ٹی وی بند ہی رہتا ہے، ٹی وی آن کیا تو ہر چینل سے بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب منور حسن کا انتقال ہو گیا۔ فوری طور سے تدفین کی کوئی اطلاع نہیں تھی لیکن شام تک یہ خبر بھی آگئی کہ ہفتہ 27جون دوپہر ڈیڑھ بجے ناظم آباد عید گاہ میدان میں نماز ظہر کے فوری بعد نماز جنازہ ہوگی۔ منور صاحب کافی عرصے سے علیل تھے آخری دنوں میں امام کلنک میں داخل تھے پروفیسر ڈاکٹر سلیم اللہ، ڈاکٹر اظہر چغتائی اور ڈاکٹر واسع شاکر پر مشتمل ڈاکٹروں کا بورڈ ان کی دیکھ بھال کررہا تھا، اسپتال میں داخل ہونے سے قبل وہ روزآنہ گھر سے اکیڈمی آتے تھے منور صاحب کے پرانے اور بے تکلف دوست سعید عثمانی اور سرفراز صاحب منور صاحب کو گھر سے اکیڈمی لاتے اور تیمارداری کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے دوپہر کھانے میں شہاب الدین صاحب ان کی عملی مدد کرتے تھے۔
1970کے انتخاب کے بعد منور صاحب میرا آئیڈیل تھے یا یوں سمجھ لیں کہ وہ میرا رومانس تھے میں ان کی تقریریں نہ صرف بڑے انہماک سنتا تھا بلکہ اس سے زیادہ انہماک سے ان کو مستقل دیکھتا رہتا اس لیے ان کا پورا وجود مجھے بہت اچھا لگتا تھا صاف ستھرا چمکتا ہوا لباس دوران تقریر ہونٹوں پر ہلکی پھلکی مسکراہٹ وہ اتنے ذہین اور فطین مقرر تھے یہ اندازہ لگا لیتے تھے لوگ ان کی باتوں کو غور سے سن رہے ہیں اور جب یہ اندازہ لگاتے کہ اکثریت کسی اور خیالوں میں گھوم رہی ہے تو وہ درمیان میں کوئی لطیفہ یا واقعہ سنانے لگتے اور سب لوگ فوراً متوجہ ہو جاتے۔ 1972 میں میری عمر 20سال تھی اس وقت میں حلقے کا نائب ناظم بنا پھر تھوڑے عرصے بعد ناظم حلقہ بن گیا کچھ عرصے بعد جماعت اسلامی لیاقت آباد کی ہدایت پر نوجوانوں کی تنظیم، تنظیم نوجوانان لیاقت آباد قائم کی ہم اپنے تنظیم کے پروگرام میں زیادہ تر منور صاحب کو بلاتے تھے اور وہ بخوشی ہمارے پروگرام میں آتے۔
نوجوانی کا دور تھا تنظیم نوجوانان لیاقت آباد کی سرگرمیوں کی پریس کوریج ہماری ترجیحات میں تھیں، جنرل ضیاء کے ابتدائی دور میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لیکن ہم تنظیم نوجوانان کے پلیٹ فارم سے تمام سیاسی پروگرام کرتے تھے ہم اپنے پروگراموں جماعت کی مرکزی لیڈر شپ کو زیادہ بلاتے تھے جن میں پروفیسر غفور، محمود اعظم فاروقی، سید منور حسن، عثمان رمز، ڈاکٹر اطہر قریشی نمایاں تھے۔ اس زمانے میں پاکستان قومی اتحاد فعال تھا اس لیے کہ قومی اتحاد نے بھٹو کے خلاف ایک بھر پور تحریک چلائی تھی جس کی ابتداء تو دوبارہ انتخابات کے مطالبے سے ہوئی پھر اس میں مذہب کا جذباتی رنگ غالب آگیا اور اس کو تحریک نظام مصطفی کا نام دیا گیا۔ 7جنوری 1977 کو ریڈیو پاکستان سے بھٹو کی تقریر آرہی تھی شروع کی کچھ تقاریر کے بعد عام لوگوں کی دلچسپیاں بھٹو کی تقریر سے ختم ہو چکی تھیں، اس سے قبل جنرل ایوب خان ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو قوم سے خطاب کرتے تھے بھٹو نے کہا کہ جس طرح ایوب خان ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تقریر کے نام پر بین بجایا کرتا تھا، میں ایسا نہیں کروں گا۔ یہ شام پانچ بجے کا وقت تھا کہ اچانک تقریر میں ایک ایسی بات آگئی جس کو سن کر میں اچھل کر بیٹھ گیا۔ بھٹو نے غیر متوقع طور پر اسمبلیوں کو ختم کرنے کا اعلان کر کے انتخابات کی نئی تاریخ کا بھی ساتھ ہی ساتھ اعلان کردیا کہ 7مارچ 1977کو قومی اور 10مارچ 1977 کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابا ت ہوں گے۔ بھٹو صاحب سیاست میں سرپرائز دینے کے شوقین تھے ان کے اس اعلان نے پورے ملک میں کھلبلی مچادی۔
بھٹو صاحب نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد 20دسمبر 1971 کو بچے کھچے پاکستان میں اقتدار اس طرح حاصل کیا کہ جنرل یحییٰ کے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کی کیپ پہن لی جس پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے شدید اعتراض کیا، مذاکرات ہوئے اور 14اگست 1972کو عارضی آئین نافذ کرکے چیف مارشل لا کی کیپ اتار کر وزیر اعظم کا منصب حاصل کرلیا اور یہ طے ہوا کہ ایک سال میں مستقل دستور بنالیا جائے اور 14اگست 1973مستقل آئین نافذ کردیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور 14اگست 1973 کو پانچ سال کے لیے دستور نافذ ہوا اور بھٹو صاحب پانچ سال کے لیے آئینی وزیر اعظم ہو گئے، اس دستور کی روشنی میں 14اگست 1978کو یہ میعاد پوری ہوتی لیکن بھٹو صاحب نے جو آئینی طور پر دو سال مزید حکمراں رہ سکتے تھے، انہوں نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیوں کیا۔ 1976 کا پورا سال اس طرح گزرا کہ روز آنہ کی بنیاد پہ خبریں آتیںکہ فلاں چودھری صاحب اپنے ایک ہزار ساتھیوں کے ساتھ پی پی پی میں شامل ہو گئے، حتی کہ ایک موقع پر بھٹو نے خود کہا کہ ملک کی آبادی 8کروڑ ہے اور 10کروڑ پی پی پی میں شامل ہو چکے ہیں، اس وقت بڑے اجتماع پر پابندی تھی لیکن جماعت کے چھوٹے اجتماعات جن میں چالیس پچاس کی حاضری ہوتی ان اجتماعات سے منور صاحب بڑے دلچسپ پیرائے میں خطاب کرتے کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ حکومت مضبوط ہے میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ یہ حکومت اب گئی جب گئی بس یاسین شریف پڑھنے کی دیر ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ آپ کہیں تو میں آپ کو وہ تاریخ بتادوں جس تاریخ کو یہ حکومت جارہی ہے، ایک موقع پر یہی جملہ دہرایا اور کہا کہ میں آپ کو تاریخ نہیں بتائوں گا کہ آپ کے چہروں کی مسکراہٹ بتارہی ہے کہ آپ کو یہ تاریخ معلوم ہے۔ بھٹو صاحب کا طرز حکومت ظالمانہ تھا اپنے سیاسی مخالفین کو گرفتاری سے لے کر ان کا قتل تک کروا دیتے تھے، جس میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر شہید جن کو صرف اس بات پر شہید کیا گیا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بھٹو اگر 93ہزار قیدیوں کو واپس نہیں لائے تو انہیں ائر پورٹ پر اترنے نہیں دیا جائے گا اور بھی کئی سیاسی لوگوں کے قتل ہوئے جن میں نواب محمد احمد خان بھی شامل تھے جن کی ایف آئی آر پر بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔
بہر حال ان کے دور کی سیاسی تفصیلات تو بہت زیادہ ہیں ان کے اس اچانک اعلان کے بعد راتوں رات پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل ہوگئی۔ بات دراصل یہ تھی کہ بھٹو صاحب کو ایجنسیوں نے یہ اطلاع دی کہ اس وقت اپوزیشن منتشر ہے پورے ملک میں پی پی پی کی سیاست عروج پر ہے اس موقع پر اگر انتخاب ہوجائے تو پی پی پی کلین سوئپ کرجائے گی لیکن ایک ہی رات میں پانسہ پلٹ گیا پاکستان قومی اتحاد نہ صرف بنا بلکہ پورے ملک میں بھٹو کے ظلم کے ستائے ہوئے عوام پی این اے کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔ 9جماعتوں کے اتحاد کے صدر مفتی محمود اور سیکرٹری رفیق احمد باجوہ بنائے گئے کچھ عرصے بعد باجوہ صاحب کی جگہ مرحوم پروفیسر عبدالغفور احمد اس کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔ کراچی سے جو پی این اے کے امیدوار انتخاب میں حصہ لے رہے تھے ان میں جماعت اسلامی کی طرف سے پروفیسر غفور، محمود اعظم فاروقی اور سید منور حسن تھے منور صاحب کی پر جوش تقریروں کا بڑا چرچا تھا۔ منور صاحب سوسائٹی سے امیدوار تھے ان کے مقابلے پر پی پی نے جمیل الدین عالی کو کھڑا کیا تھا منور صاحب اپنے حلقوں سے خطاب کرکے واپس لوٹتے تو لیاقت آباد میں کہیں نہ کہیں پی این اے کا جلسہ ہورہا ہوتا جلسہ ختم ہونے کے باوجود عوام بیٹھے رہتے کہ ابھی منور صاحب آتے ہوں گے ان کی تقریر سن کر گھر جائیں گے، بندھانی کے روڈ پر جلسہ تھا لوگ بیٹھے رہے منور صاحب آئے ان کی تقریر ہوئی پھر گھر واپس گئے غریب آباد کے چوک پر جلسہ ہوا وہاں بھی اسی طرح منور صاحب کا خطاب ہوا بڑی دلچسپ صورتحال تو چار نمبر کے جلسے میں ہوئی کہ دوران تقریر ایک بچے نے کچھ رقم لا کر منور صاحب کو دی، منور صاحب نے کہا کہ ایک بچہ ہماری بات سمجھ گیا بس پھر کیا تھا لوگوں نے بڑے جذباتی انداز میں اسٹیج پر آ آ کر پیسے دینے شروع کردیے وہ بڑے جذباتی مناظر تھے ان جذباتی مناظر کے ایک عینی گواہ تو اب بھی الحمدللہ حیات ہیں جو اس وقت اس حلقے کے ناظم تھے اور وہ جناب بشارت صاحب۔ پورے کراچی میں منور صاحب کی تقریروں کی دھوم مچی ہوئی تھی وہ کہیں بھی تقریر کررہے ہوں لیاقت آباد میں ان کی ایک تقریر ضرور ہوتی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے اس میں جناب منور صاحب نے پورے ملک میں قومی اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے سب سے زیادہ ووٹ یعنی 72ہزار ووٹ حاصل کیے تھے اس کے بعد دوبارہ انتخاب کے لیے تحریک کا آغاز ہوا تو ابتدا ہی میں تمام مرکزی لیڈر منور صاحب سمیت گرفتار ہو جاتے ہیں۔ بھٹو سے عوام کی نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سقوط مشرقی پاکستان کی ذمے دار وہ بھٹو صاحب کو بھی سمجھتے تھے کہ اگر یہ مجیب الرحمن کی اکثریت مان کر اس کو حکومت بنالینے دیتے تو یہ ملک قائم و دائم رہتا۔ منور صاحب کی تربیتی اجتماعات میں ایک تقریر لازمی ہوتی۔ لیاقت آباد میں ہر سال عید ملن اجتماع ہوتا جس میں ایک تقریر منور صاحب کی لازمی ہوتی۔ ایک دفعہ ہم کسی اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور جارہے تھے میری گود میں عبید تھے، جو اس وقت شاید تین چار ماہ کے ہوں گے، منور صاحب وضو کرکے آرہے تھے میں نے عبید کا تعارف کرایا وہ مسکرائے اور اپنے ہاتھوں کے وضوکا پانی عبید کے چہرے پر چھڑکا۔ آج عبید تحریک کے بڑے زبردست کارکن ہیں۔ ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین