دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) شام میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد جاں بحق اور 60 سے زائد زخمی ہو گئے۔ تُرک ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ حملہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ترکی کی سرحد پر واقع باب السلامہ گزرگاہ کے قریب اس قصبے میں کیا گیا، جو مزاحمت کاروں کے زیرانتظام ہے۔ مرنے والوں میں 5 شہری اور 2 دیگر لوگ شامل ہے، جب کہ زخمیوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی ہے۔ زخمیوں کو ترکی کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے، جن میں سے درجنوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ تُرک فوج نے ان حملوں کی ذمے داری کرد علاحدگی پسندوں پر ڈالی ہے۔ ترکی کے فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے پاک علاقوں میں بم حملوں کی ذمے دار پی کے کے تنظیم ہے، مگر شہریوں کے جانی نقصان کے باعث وہ قبول کرنے سے گریز کرتی ہے۔ اتوار کی صبح عفرین میں بھی ایک گاڑی میں نصب بم پھٹنے سے 13 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اسی دوران شام میں اتوار کے روز ملک کی نئی پارلیمان کا انتخاب کیا گیا۔ مختلف جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا، مگر ان میں سے کوئی بھی جماعت بشار الاسد کی پارٹی کے لیے بڑا چیلنج نہیں ثابت ہوئی، جس نے اپنی فتح کا اعلان بھی کردیا۔ شام میں پارلیمان کی 250 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ ملک میں خانہ جنگی کے دوران یہ تیسرے انتخابات ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ یہ انتخابات دو بار ملتوی کیے جا چکے تھے۔ انتخاب میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2 ہزار امیدواروں نے حصہ لیا، لیکن 2 عشروں سے اقتدار میں رہنے والی بشارالاسد کی بعث پارٹی کے لیے کوئی بھی جماعت خطرہ نہیں بن سکی۔ 7 ہزار سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ بشار کے مخالفین نے ان انتخابات کو ایک مذاق سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کی وجہ سے شام کے لاکھوں باشندے اس حال کو پہنچے ہیں۔ ترکی میں موجود شامی حزب اختلاف کے قومی اتحاد نے کہا کہ اتوار کو ہونے والے انتخاب اسد حکومت کا رچایا گیا ایک ڈراما تھے۔ شام میں یہ انتخابات ایسے حالات میں ہوئے ہیں، جب ملک خانہ جنگی اور شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے۔ امریکا نے شام پر جو اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں اور لبنان جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اس کی وجہ شام کی معاشی حالت بہت خستہ ہو چکی ہے۔