تواضع

408

تواضع کے معنی ہیں: ’’عَجزو انکسار، اپنے آپ کو فروتر سمجھنا، دوسروں کو حسبِ مراتب احترام دینا‘‘، اس کے ایک معنی ہیں: ’’حق کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا اور شریعت کے حکم کو بلاچون وچِرا تسلیم کرنا‘‘۔
دینی امور میں تواضع کے معنی ہیں: ربّ کی رضا پر راضی ہونا، یعنی بندہ ربّ کی بندگی محض اس لیے نہ کرے کہ دین کی بات اس کی رائے، خواہش، مزاج اور عادت کے مطابق ہے، بلکہ اس لیے کرے کہ وہ شارع کا حکم ہے، دین کے لیے عاجزی اختیار کرنا، یعنی رسول اللہ ؐ کے حکم کے آگے جھک جانا۔ تواضع اعلیٰ انسانی قدر ہے، اللہ تعالیٰ کو بندے کا یہ وصف بہت پسند ہے، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’صدقے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی، معاف کرنے سے اللہ عزت میں اضافہ فرماتا ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا کے لیے تواضع کرتا ہے، اللہ اُسے رفعت عطا فرماتا ہے، (مسلم)‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ متواضع بندہ اپنے دل میں کشادگی رکھتا ہے اور دوسروں کی غلطی معاف کردیتا ہے۔ ایک عَجز وانکسار اضطراری ہے، یعنی حالات کے جبرکا نتیجہ ہوتا ہے، شیخ سعدی نے کہا ہے: ’’گداگر تواضع کند خوئے اُوست‘‘، یعنی فقیر اگر عاجزی اختیار نہ کرے، تو اُسے خیرات کون دے گا، یہ تو اس کی مجبوری ہے، لیکن اگر کوئی صاحبِ منصب تواضع کرے تو یہ اس کا وصفِ کمال ہوتا ہے اور اس کی خوبی قرار پاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کے نتیجے میں اسے رفعت وسرفرازی عطا فرماتا ہے، حدیث پاک میں ہے:
’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: عائشہ! اگر میں چاہوں تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں، میرے پاس ایک فرشتہ آیا، اس کی کمر کعبے کے برابر تھی، اس نے کہا: آپ کا ربّ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: آپ چاہیں تو نبوت اور بندگی کو اختیار کرلیں اور چاہیں تو نبوت اور بادشاہت کو اختیار کرلیں، تو میں نے جبریلؑ کی طرف دیکھا، انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ عاجزی کو اختیار کریں، تو میں نے کہا: میں نبوت اور بندگی کو اختیار کرتا ہوں، (شَرْحُ السُّنَّہ)‘‘۔
’’معراج النبی ؐ کے موقع پر جب نبیؐ درجاتِ عالیہ اور مراتبِ رفیعہ میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: ’’اے محمد! میں آپ کو شرف دینا چاہتا ہوں، آپ ؐ نے عرض کی: اے میرے ربّ! مجھے اپنی عبودیتِ خاصّہ کا شرف عطا کیجیے تو اللہ تعالیٰ نے آیتِ معراج نازل فرمائی، (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد)‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کا فقر اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’مجھے کمزوروں میں تلاش کرو، کیونکہ تمہیں انہی کمزوروں کی (دعائوں کی) برکت سے رزق عطا کیا جاتا ہے اور نصرتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے، (ترمذی)‘‘۔ لوگوں کا ظاہری حال دیکھ کر انہیں حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، حدیث پاک میں ہے:
’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: بہت سے پراگندہ حال ایسے ہیں کہ انہیں دروازوں سے دھتکار دیا جاتا ہے (دوسری حدیث میں ہے: ’’(ظاہری حال کودیکھ کر) لوگ ان کی طرف نظرِ التفات نہیں کرتے، (اَلْمُسْتَدرَک)‘‘، لیکن (اللہ کی بارگاہ میں ان کی محبوبیت کا عالَم یہ ہے کہ) اگر وہ کسی بات کے بارے میں اللہ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ انہیں سرخرو فرماتا ہے، (مسلم)‘‘۔
فقراء صحابہ کرام صہیب، یاسر، عمّار، مقداد اور بلالؓ آپؐ کی مجلس میں اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ قریش کے سرداروں اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن وغیرہ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ ہمارے لیے ایک وقت مخصوص کردیں، جس میں یہ خَستہ حال لوگ نہ ہوں، تو ہم آپ کی بات سن لیں گے، لیکن ان کے ساتھ برابری کی سطح پر بیٹھنا ہماری توہین ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (1): ’’اور (اے رسول!) اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ لازم رکھیں جو اپنے ربّ کی رضا کے لیے صبح وشام اُس کی عبادت کرتے ہیں اور آپ اپنی نگاہِ التفات کو اُن سے نہ ہٹائیں، (الکہف: 28)‘‘۔ (2): ’’اور (اے رسول!) آپ ان لوگوںکو دور نہ کیجیے جو اپنے ربّ کی رضا کے لیے صبح وشام اُسے پکارتے ہیں، (الانعام: 52)‘‘۔ سیدنا خبّاب بیان کرتے ہیں: (اس کے بعد) ہم جب نبیؐ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے اور مجلس کے برخاست ہونے کا وقت آجاتا، تو ہم خود کھڑے ہوجاتے اور رسول اللہ ؐ کو چھوڑ دیتے یہاں تک کہ آپ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے، ( ابن ماجہ)‘‘، حدیث پاک میں ہے:
’’رسول اللہ ؐ کے پاس سے ایک شخص کا گزر ہوا، آپ ؐ نے صحابہ سے فرمایا: اِس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے، انہوں نے عرض کی: یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اُسے قبول کیا جائے، کسی کی سفارش کرے تو اُسے مان لیا جائے، کوئی بات کرے تو اُسے توجہ سے سنا جائے، راوی بیان کرتے ہیں: پھر آپ ؐ خاموش ہوگئے، پھر مسلمانوں میں سے ایک فقیر کا گزر ہوا، آپ ؐ نے صحابہ سے پوچھا: اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو، انہوں نے عرض کی: یہ اس قابل ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو قبول نہ کیا جائے، کسی کی سفارش کرے تو نہ مانی جائے اور کوئی بات کہے تو اُسے توجہ سے نہ سنا جائے، رسول اللہ ؐنے فرمایا: (تم جس کی تعریف کر رہے تھے اگر) اُس جیسوں سے زمین بھر جائے، تو یہ ایک اُن سب پر بھاری ہوگا، (بخاری)‘‘، رسول اللہ ؐ دعا میں تضرُّع اور عَجزوانکسار کا مظاہرہ فرماتے، حدیث پاک میں ہے:
’’اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو نفع نہ دے، ایسے قلب سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کے اندر تیرے لیے عاجزی نہ ہو، ایسی دعا سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو قبول نہ ہو، ایسے نفس سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو کبھی سیر نہ ہو اور بھوک سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ بدترین ساتھی ہے اور خیانت سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ یہ بدترین رازدان ہے اور سستی، بخل، بزدلی اور بڑھاپے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، عمر کی اُس منزل سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو انسان کو بے توقیر بنادے، دجال کے فتنے، قبر کے عذاب اور حیات وموت کے ہر فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ! ہم تجھ سے ایسے دل کا سوال کرتے ہیں جو آہ وزاری کرنے والا اور پیکرِ عَجز ہو، جو تیری طرف رجوع کرنے والا ہو، اے اللہ! میں تجھ سے ایسے اعمال کا سوال کرتا ہوں جو تیری مغفرت کا سبب بننے والے اور تیرے عذاب سے نجات دینے والے ہیں اور ہم ہر گناہ سے سلامتی اور ہر نیکی کی توفیق مانگتے ہیں جو جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کا وسیلہ ہوں‘‘۔ آپ سجدہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: ’’اے اللہ! میرا قلب اور قالب دونوں تیری بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں، میرا دل تجھ پر ایمان لایا، تونے مجھ پر جو نعمتیں فرمائیں، میں اُن کا اعتراف کرتا ہوں، اے اللہ! مجھے بخش دے، (اَلْمُسْتَدْرَکْ)‘‘۔
’’سیدنا ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: مساکین سے محبت کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ؐ کو دعا کرتے ہوئے سنا: اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، اسی حالت میں مجھے موت عطا فرما اور قیامت کے دن مجھے مساکین کی جماعت میں اٹھا، (ترمذی)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’سواللہ کی عظیم رحمت کے سبب آپ مسلمانوں کے لیے نرم دل ہوگئے اور اگر آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے اردگرد سے منتشر ہوجاتے، سو انہیں معاف کیجیے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کیجیے اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیجیے، پھر جب آپ ( کسی کام کا) پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ پر بھروسا کیجیے، بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے، (آل عمران: 159)‘‘۔ ’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری جانب وحی فرمائی ہے کہ تواضع کرو یہاں تک کہ نہ کوئی دوسرے پر فخر کرے اور نہ دوسرے پر زیادتی کرے، ( مسلم)۔ عام طور پر ہر بڑے آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس سے کم تر اور کم عمر اُسے سلام کرنے میں پہل کریں، لیکن رسول اللہ ؐ کا شِعار یہ تھا:
’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: نبی ؐ کا گزر بچوں کے پاس سے ہوا تو آپ ؐ نے انہیں سلام کیا اور یہی آپ کا معمول تھا، (بخاری)‘‘۔ آج کوئی عام مقرر بھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اس کی تقریر کے درمیان خلل ڈالے، لیکن رسول اللہ ؐ کا شعار اس سے مختلف تھا، حدیث پاک میں ہے:
’’تمیم بن اُسید بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ؐ کے پاس پہنچا، اُس وقت آپ خطبہ دے رہے تھے، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! ایک اجنبی آیا ہے جو اپنے دین کو نہیں جانتا، وہ اپنے دین کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے، رسول اللہؐ نے خطبہ موقوف کیا اور میری جانب متوجہ ہوئے یہاں تک کہ میرے قریب آگئے، ایک کرسی لائی گئی، آپ اس پر تشریف فرما ہوئے اور جو علم اللہ نے آپ کو عطا کیا تھا، اس میں سے مجھے تعلیم فرمانے لگے، پھر جاکر آپ نے اپنے خطبے کو مکمل فرمایا، (مسلم)‘‘۔
لوگ بعض پیشوں کو حقیر سمجھتے ہیں، لیکن رسول اللہ ؐ کا شعار اس سے مختلف تھا، حدیث پاک میں ہے:
’’نبی ؐ نے فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں چرائی ہیں، صحابہ کرام نے پوچھا: (یارسول اللہ!) اور آپ نے بھی، آپؐ نے فرمایا: میں چند قیراط کے عوض مکے والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا، (بخاری)‘‘۔
’’سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہؐ اپنے گھر کا کام کرتے، اپنے کپڑے خود سی لیاکرتے، اپنے جوتے مرمت فرماتے اور گھر کے مردانہ کام بھی کرتے تھے، (مسند احمد)‘‘۔
رسول اللہؐ نرم خو تھے، اکثر تبسم فرماتے رہتے، آپؐ کو صحابہ کی محفل میں کبھی پائوں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
’’سیدنا عمرؓ نے منبر پر فرمایا: لوگو! تواضع کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو اللہ کی رضا کے لیے تواضع کرتا ہے، اللہ اُسے سربلندی عطا فرماتا ہے، وہ اپنے دل میں اپنے آپ کو معمولی سمجھتا ہے، جبکہ لوگوں کی نظروں میں وہ عظیم القدر ہوتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے، اللہ اُسے گرا دیتا ہے، وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے، لیکن لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوتا ہے، (مشکوٰۃ)‘‘۔