صحافی کا اغوا، تحقیقات ہونی چاہیے

237

اسلام آباد سے ایک صحافی مطیع اللہ جان کو پراسرار طور پر اغوا کر لیا گیا تاہم جب ہر طرف سے احتجاج ہوا تو منگل کی رات انہیں فتح جنگ کے سنسان علاقے میں چھوڑ دیا گیا۔ مطیع اللہ جان خوش قسمت ہیں کہ وہ سر سے پائوں تک سلامت ہیں ورنہ صحافیوں سمیت کئی افراد کو جب اس طرح اٹھایا گیا تو ان پر تشدد کرکے انہیں سڑک کنارے پھینک دیا گیا۔ بات صرف ایک صحافی کے اغوا کی نہیں بلکہ اس طریق کار کی ہے جس پر ایک عرصے سے عمل کیا جا رہا ہے۔ اگر مطیع اللہ نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اس کی ایف آئی آر درج کرکے علی الاعلان حراست میں لیا جائے اور 24 گھنٹے میں اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ ایسا نہ ہو تو پورا عمل مشکوک سمجھا جائے گا اور شک کا دائرہ خفیہ ایجنسیوں کے گرد رہے گا۔ مطیع اللہ کے بارے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انہیں اغوا کرنے والے پولیس کی وردی میں تھے جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے۔ ان کے اغوا پر صحافتی تنظیموں، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور خود وزیراعظم نے نوٹس لیا اور بازیابی کی ہدایت کی جس پر دبائو میں آکر انہیں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ضرورت ہے کہ اس بات کی پوری جانچ کی جائے کہ انہیں کس نے اٹھایا اور وہ کیا جاننا چاہتے تھے۔ گزشتہ منگل کو اس معاملے پر قومی اسمبلی میں بھی ہنگامہ ہوا اور صحافی کے اغوا پر حزب اختلاف نے واک آئوٹ کیا۔ ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ پورے میڈیا کی زبان بندی کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے لیکن لوگوں کو اٹھانے سے سچ دبایا نہیں جا سکتا۔ ممکن ہے یہ دیگر صحافیوں کے لیے بھی پیغام ہو۔ بدھ ہی کو توہین عدالت پر مطیع اللہ جان کی پیشی تھی جہاں جج نے بھی یہ سوال کیا کہ کیا مطیع اللہ کا بیان لیا گیا ہے، لیکن اس کا جواب نفی میں تھا۔ ہم ایک بار پھر اصرار کریں گے کہ وردی والوں کے ذریعہ لوگوں کو اغوا کرنے پر سخت کارروائی کی جائے۔ یہ تو ایک صحافی کا معاملہ تھا اس لیے شور مچ گیا، عام لوگ بھی اس طرح اغوا ہو رہے ہیں۔