زندگی برتنے کا سلیقہ

344

زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی اسے بسر کرنے کے لیے کچھ قواعد وضوابط ہوتے ہیں۔ جو لوگ یا قومیں ان قواعد وضوابط کا اطلاق زندگی پر کرتے ہیں خوشحالی اور کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ مگر جو لوگ زندگی کو انجوائے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، زندگی ان کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ زندگی کا سارا حسن اور تمام لطف حالات کے اتار چڑھائو پر ہوتا ہے۔ جو لوگ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں وہ زندگی کے مقصد سے واقف نہیں ہوتے۔ اور جو انگوٹھا چوستے ہوئے دنیا میں وارد ہوتے وہ زندگی کی آسائشوں سے واقف نہیں ہوتے مگر زندگی گزارنے کا سلیقہ جانتے ہیں زندگی کی اتار چڑھائو سے نابلد ہوتے ہیں اور بالآخر ایک دن زندگی ان کے قدموں میں بچھ جاتی ہے۔ مگر جو لوگ زندگی کو قسمت کو لکھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں زندگی انہیں قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ انہوں نے سیاسی زندگی میں کسی ضابطے اور قاعدے کو اہمیت ہی نہیں دی ان کا مقصد پاکستان کا وزیر اعظم بننا تھا۔ سو وزارت عظمیٰ کی مسند پر جلوہ افروز ہوگئے۔ ہم نے پہلے بھی انہی کالموں میں کہا تھا کہ کسی بھی کام کرنے سے قبل اس کے مقصد کا تعین بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہودی دنیا کی کامیاب ترین قوم ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کا مقصد سامنے رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ نے پاکستان کی تحریک آزادی کی ابتدا کی تو اس کا مقصد پاکستان کا حصول تھا۔ مگر وہ پاکستان کے مقصد کاتعین ہی نہ کر سکے سو، آج ہم پاکستانی قوم کی حیثیت سے اقوام عالم میں اپنی شناخت رکھتے ہیں مگر پاکستان کہاں ہے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں حاصل کیا گیا تھا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے یہاں کون سا نظام حکومت قائم کر نا ہے۔ اسی طرح عمران خان وزیر اعظم تو بن بیٹھے لیکن یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا وزیر اعظم بن کر کیا کریں گے۔ وہ کہتے تھے کہ دیانت داری کا ایسا سونامی لائیں گے جو کرپشن کو بہا لے جائے گا۔ مگر انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا تھا۔ سو، سونامی تو لائے مگر بے روزگاری، بے گھری اور مہنگائی کا سونامی لائے جس نے سب کچھ ڈبو دیا۔ اہل وطن کی خوشحالی خوش مزاجی اور خوش دلی کو بہا لے گیا۔ ہر ملک کے معاشی حالات اتار چڑھائو سے دو چار ہوتے رہتے ہیں۔
ایوب خان کے دور میں بھی چینی کا بحران آیا تھا۔ مگر انہوں نے اس بحران کو قوم کی بد حالی اور سرمایہ داروں کی خوشحالی کا سبب بننے نہیں دیا جنرل مشرف کے دور حکومت میں ایک کلو گھی کے پیکٹ کی قیمت ساٹھ روپے تھی اچانک دو روپے کا اضافہ کر کے باسٹھ روپے فی کلو کر دیا گیا۔ جنرل مشرف نے اپنی قومی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دو روپے فوراً کم کر دیے جائیں اور ایسے ہی ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں چینی کی قیمت پچپن یا باون روپے سے بڑھ کر اسی تا نوے روپے ہو گئی۔ مگر عمران خان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ موصوف نے مہنگائی کا سبب جاننے کے لیے ایک کمیٹی یا کمیشن قائم کر دیا جو تا حال قائم و دائم ہے۔ اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے چمٹا رہے گا۔ اور اس وقت تک چمٹا رہے گا جب تک عمران خان وزارت عظمیٰ کی مسند سے چمٹے رہیں گے۔ عمران خان ملکی حالات اور قومی مسائل سے بے شک آگاہ نہیں۔ مگر وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ کسی بھی معاملے پر مٹی ڈالنے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ کمیٹی یا کمیشن تشکیل دے دیا جائے اور اپنے چیلے چاٹوں سے کہا جائے کہ ان کی شان میں قصیدے پڑھو اور قصیدے پڑھنے والوں کو خریدو خواہ منہ مانگی قیمت دینا پڑے اور اب ان کے خریدے ہوے بندے دن رات یہی راگ الاپ رہے ہیںکہ کسی حکومت کو یہ جسارت نہیں ہوئی کہ وہ کسی رپورٹ کو پبلک کرے سوال یہ ہے کہ رپورٹ کو پبلک کرنے سے عوام کو کیا فائدہ ہوا۔ شاید عمران خان کو معلوم نہیں کہ حکومت کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ چینی آج بھی اسی تا نوے روپے فروخت ہو رہی ہے۔ اور بیس کلو آٹے کا تھیلا بارہ سو روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے بھونپوں جسے آمر کہتے نہیں تھکتے اس نے ایک کلو گھی کی قیمت میں دو روپے اضافہ کا نوٹس لے لیے تھا۔ اور قیمت ساٹھ روپے ہی رہی۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایسا کیوں نہیں کیا ان دنوں عوام میں ایک لطیفہ خاصا مقبول ہے۔ کہتے ہیں عمران خان نے جہانگیر ترین کو چینی کی قیمتوں میں اضافہ پر حیرت کا اظہار کیا اور اس کی وجہ جاننا چاہی تو ترین صاحب نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ جہاز تھوک سے نہیں چلتے۔