پیوٹن کی دھمکی! ناٹو بھاگ ورنہ مارا جائے گا

890

یہ 11ستمبر 2001ء کی رات تھی جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے فون کی گھنٹی بجی اور دوسری جانب امریکا کی فوج کے سربراہ رچرڈ آرمٹیج زمینی خدا بن کر جنرل پرویز مشرف کو حکم دے رہے تھے کہ امریکا کو نہتے افغانیوں (امریکا کے مطابق دہشت گردوں) پر بمباری اور ان کو تباہ و برباد کرنے کے لیے پاکستان کی سر زمین کی ضرورت ہے اور انکار کی صورت میں پاکستان کو ’’پتھر کے زمانے میں بھیج دیں گے‘‘۔ جس پر فوری عمل کیا گیا اور اکتوبر میں نہتی طالبان حکومت اور عوام پر تاریخ کی بد ترین بمباری کی گئی اور یہ بمباری ایک ماہ تک جاری رہی اس کے بعد شیطانی کھیل شروع ہوا ہزاروں مجاہدین کو دہشت گرد بنا کر کیوبا کے بحری اڈے گوانتانامو بے ’’دین، علماء کرام افغانستان اور پاکستان سے اورمجاہدین کو نشان عبرت بنانے کے لیے قیدی بنایا گیا۔ ان مجاہدین کو ہوائی جہاز کی سیٹ سے باندھ کر کیوبا کے بحری اڈے گوانتانامو بے لے جایا گیا اور ان کی تصاویر پوری دنیا میں میں پھیلا کر یہ ثابت کیا گیا کہ دنیا میں کوئی ملک اور قوم اگر امریکا سے الجھی تو اس کو طالبان کی طرح نشان عبرت بنا دیا جا ئے گا اور یہ سب کچھ ناٹو کی سربراہی میں ہوا جس کو امریکا کمانڈ کر رہا تھا۔ لیکن آج طالبان افغانستان میں موجود ہیں اور امریکا اور اس کی ناٹو افغانستان سے کیا رفتہ رفتہ پوری دنیا سے غائب ہوتی جارہی ہے۔ 18جولائی 2020ء کو مکمل تیاری کے بعد رشین فیڈریشن کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلان کیا کہ ان کی افواج بحیرہ کیسپین اور بحر سیاہ (بلیک سی) میں جنگی مشقیں کرنے کی تیاری کر چکی ہیں اور بہت جلد مشقیں شروع کر دی جائیں گی۔ ان بحری مشقوں میں ایک لاکھ 50ہزار فوج، 100 سے زائد بحری جہاز اور 400 ہوائی جہاز شرکت کریں گے اس کے علاوہ اور ممالک بھی اس میں شرکت کر سکتے ہیں، پیوٹن کے اس اعلان پر سب سے زیادہ پریشانی ناٹو کے رکن ملک یوکرین کو ہوئی جس نے چند دن قبل بحیرہ کیسپین میں بحری مشقوں کا پروگرام بنا رکھا ہے اور اس کے لیے ’’ناٹو‘‘ کے ارکان کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ بھی اس مشق میں شامل ہو جائیں۔ لیکن ’’فرانسیسی صدر یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ ناٹو ختم ہو چکی ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ ناٹو مر چکی ہے‘‘ تو یہ بھی درست ہے۔ اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ امریکا کی خدائی برقرار رکھنے والی ’’ناٹو‘‘ جب افغانستان میں حقارت و نفرت کے ساتھ شکست کھا کر نکلی تو مر چکی تھی اب ولا دیمیر پیوٹن کو اس میت کو دفن کرنے کے لیے ’’بحیرہ کیسپین‘‘ یا ’’بلیک سی‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے جہاں وہ ناٹو کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ولاد یمیر پیوٹن کے بارے میں عام معلومات کو سمجھا جائے۔ ان کی پیدائش 7 اکتوبر 1952ء اسٹالن گراڈ میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک (یو ایس ایس آر) کہلاتی تھی پیوٹن 7 مئی 2012ء سے تاحال روس کے صدر ہیں۔ پیوٹن اس سے پہلے بھی 2000ء سے 2008ء تک صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ 1999ء سے 2000ء تک اور پھر 2008ء سے 2012ء تک روس کے وزیر اعظم رہے۔ پیوٹن متحدہ روس نامی روسی سیاسی جماعت کے پہلے چیئرمین تھے۔ اب ان کے ملک میں گزشتہ سال ایک ریفرنڈم ہوا جس میں وہ کامیاب ہوئے جس کی رو سے وہ 2036ء تک ملک کے صدر رہ سکتے ہیں۔ ولادیمیر پیوٹن نے جس وقت کے جی بی میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا اس وقت یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک (یو ایس ایس آر) کا زوال شروع ہوچکا تھا اس طرح ولاد یمیر پیوٹن نے یو ایس ایس آر کی تباہی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے فوری بعد رشین فیڈریشن کے اعلیٰ عہدیداروں میں شامل ہو گئے۔
پیوٹن نے ’’بحیرہ کیسپین‘‘ یا ’’بلیک سی‘‘ ہی کو کیوں اپنی بحری مشقوں کے لیے منتخب کیا ہے۔ بحیرہ قزوین کو بحیرہ کیسپین یا بحیرہ خزر بھی کہا جاتا ہے۔ بحیرہ قزوین کا نام ایران کے شہر قزوین سے موسوم ہے، جو اس کے جنوبی ساحل کے پاس واقع ہے۔ یہ سمندر دراصل رقبے اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے، جس کا رقبہ 3 لاکھ 71 ہزار مربع کلومیٹر (ایک لاکھ 43 ہزار 244 مربع میل) جبکہ حجم 78 ہزار 200 مکعب کلومیٹر (18 ہزار 761 مکعب میل) ہے۔ یہ ایشیا اور یورپ کے درمیان چاروں طرف سے زمین سے گھرا ہوا خطہ آب ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 1025 میٹر (3 ہزار 363 فٹ) ہے۔ بحیرہ قزوین کو سمندر اس لیے قرار دیا جاتا ہے کہ اس کا پانی نمکین ہے۔ روسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ کو بھی متبادل کے طور پر ’’روسی وفاق‘‘ کہا جاتا تھا۔ شمال مغرب سے جنوب مشرق کی طرف روس کی زمینی سرحدیں ناروے، فن لینڈ، استونیا، لٹویا، لتھووینیا اور پولینڈ، بیلاروس، یوکرین، جارجیا، آذربائیجان، قازقستان، چین، منگولیا اور شمالی کوریا سے ملتی ہیں۔ جبکہ اس کی آبی سرحدیں جاپان سے بواسطہ بحیرہ اخوتسک، ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ریاست الاسکا سے بواسطہ آبنائے بیرنگ اور کینیڈا کے بحر منجمد شمالی کے جزائر سے ملتی ہیں۔ اب ’’بحیرہ سیاہ‘‘ کی جانب دیکھتے ہیں کہ روس اِس سمندر میں کیوں بحری مشقیں کررہا ہے اس سمند رکے کناروں پر ’’ناٹو‘‘ کے دو اہم ملک ترکی اور بلغاریہ ہیں، اُدھر دوسری جانب فرانس کے صدر نے اعلان کر دیا ہے کہ ناٹو یا شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب اس کا کوئی وجود نہیں جسے شمالی اوقیانوسی اتحاد، اوقیانوسی اتحاد یا مغربی اتحاد بھی کہا جاتا ہے، ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو 4 اپریل 1949ء کو امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک معاہدے کے تحت عمل میں لائی گئی۔ اس کا صدر دفتر بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں واقع ہے۔ جہا ں اب ویرانیوں کا راج ہے اور اس کے بانی ارکان میں امریکا، بیلجیم، نیدرلینڈز، لکسمبرگ، فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، اٹلی، ناروے، ڈنمارک اور آئس لینڈ شامل ہیں۔ تین سال بعد 18 فروری 1952ء کو یونان اور ترکی نے بھی ناٹو میں شمولیت اختیار کرلی۔ ان بانی ارکان میں سے ایک اہم بانی رکن فرانس یہ کہہ رہا ہے کہ ’’ناٹو‘‘ ختم ہو گیا ہے۔ 1954ء میں سوویت یونین نے تجویز دی کہ وہ یورپ میں قیام امن کے لیے ناٹو میں شمولیت چاہتا ہے تاہم ناٹو کے رکن ممالک نے اس کی مخالفت کی۔
دنیا بھر کی طرح امریکا روس کے ساتھ بلیک سی پر چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے روس اور امریکا کے درمیان کشیدہ تعلقات اور چھیڑ چھاڑ کے بڑھتے واقعات میں روس کے لڑاکا طیارے امریکی نیوی کے جاسوس طیاروں کی راہ میں رکاوٹ بنے رہتے ہیں۔ روس امریکا کو خبردارکر تا رہتا ہے۔ امریکی دفاعی حکام کے مطابق بلیک سی پر گشت کرتے امریکی نیوی کے طیارے کے راستے میں روسی لڑاکا طیارے رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ روسی طیارہ ایس یو 27 نہایت تیز رفتاری سے امریکی طیارے ای پی 3 کے بالکل سامنے سے گزرتا ہے امریکا کا کہنا ہے کہ روسی طیارے کے اس اقدام سے امریکی پائلٹ اور عملے کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ روسی وزارتِ دفاع کے مطاق امریکی طیارے روس کے ائر اسپیس کے قریب آجاتے ہیں جس پر ان کے لڑاکا طیارے کو حرکت میں آنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد امریکی طیارے رْخ بدل لیتے ہیں۔ روس کا کہنا ہے امریکا اس طرح کی چھیڑ چھاڑکرتا رہتا ہے۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ روس اس چھیڑ چھاڑ کو مکمل بند کرنے کے لیے ان بحری مشقوں کا انعقاد کر ے گا۔ ناروے، فن لینڈ، استونیا، لٹویا، لتھووینیا اور پولینڈ، بیلاروس، یوکرین، جارجیا، آذربائیجان، قازقستان جس میں اکثر ممالک یو ایس ایس آر (سو ویت یو نین) میں شامل تھے اور اب جب ناٹو ایک مردہ تنظیم ہے امریکا ان ممالک کی کو ئی مدد نہیں کر سکے گا۔ اس صورتحال میں ان ممالک کو بھی غور کرنا چاہیے کہ ان کو کیا کرنا ہے۔
سوال ایک مرتبہ پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناٹو کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ روس کے خلاف کارروائی کی جائے جب وہ مشرقی، مغربی یورپ اور ناٹو کے کسی رکن ملک کے خلاف کسی بھی انداز کی کوئی جارحیت کر ے تو اس صورت میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (ناٹو) تمام رکن کی مدد کر ے۔ روس یوکرین کے سمندروں میں اپنی بحری مشقیں کرنے جارہا ہے اور یہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ روس کی مشقوں سے یوکرین کی سلامتی کو خطرہ ہے لیکن آج نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (ناٹو) کا سر براہ امریکا پیوٹن کے اعلان کے بعد بھی خاموش ہے اور اس کی کوئی آواز نہیں نکل رہی ہے۔ ناٹو کے کم وبیش 55ممالک جن میں ناٹو کے براہ راست اور نان ناٹو ارکان شامل ہیں ان سے روس کے مقابلے کے لیے کوئی بھی یوکرین، بلغاریہ اور ترکی کی مدد کو نہیں آرہا کہ وہ روس کو ’’بحیرہ کیسپین‘‘ یا ’’بلیک سی‘‘ میں جنگی مشقوں سے روک سکے۔ یوکرین، بلغاریہ اور ترکی کو اپنا بوجھ خود ہی اُٹھانا پڑے گا اور یہ حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو یہ ممالک جس قدر جلدی سمجھ لیں اتناہی فائدے میں رہیں گے۔ اگر وہ امریکا کے سحر میں رہے تو ان کا بھی وہی حشر ہو گا جو ایشیا میں بھارت کا ہوا ہے۔