اب چودھری برادران کی باری

353

قومی احتساب بیورو (نیب) کے خلاف ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ بھی کہہ چکی ہے کہ یہ ادارہ سیاسی انجنیرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود نیب سیاسی انجنیرنگ سے باز نہیں آرہی۔ مسلم لیگ ق پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی ہے لیکن وفاقی اور خاص طور پر پنجاب حکومت ق لیگ سے خوف زدہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی آج بھی پنجاب میں اثر رسوخ رکھتے ہیں اور انتظامی صلاحیتوں کے حوالے سے وہ عثمان بزدار سے کہیں بہتر ہیں جو اب تک کام سیکھ رہے ہیں۔ پنجاب کے لیے کسی فعال وزیراعلیٰ کی تلاش جاری ہے تاہم پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کی اتنی نشستیں نہیں کہ وہ حکومت بنا سکے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ بزدار حکومت ق لیگ سے خوف زدہ ہے۔ اب یہ ہوا ہے کہ نیب نے چودھری برادران کے خلاف نئے مقدمات کھول دیے۔ چودھری شجاعت، پرویز الٰہی اور ان کے خاندان پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ اس پر چودھری برادران کے ترجمان نے بھی یہی کہا ہے کہ نیب سیاسی انجنیرنگ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ نیب نے جو الزامات لگائے ہیں ممکن ہے کہ ان میں کچھ حقیقت ہو لیکن 20 سال پرانے معاملات کو اس وقت اٹھانا شکوک و شبہات سے خالی نہیں ہے۔ نیب کے مطابق چودھری شجاعت اور فیملی کے 1985ء میں اثاثے 21 لاکھ روپے تھے جو 2019ء میں 51 کروڑ 84 لاکھ سے تجاوز کر گئے۔ پرویز الٰہی اور ان کے خاندان کے اثاثوں میں 4 ارب 69 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا اور بے نامی اکائونٹ سے 79 کروڑ 80 لاکھ روپے وصول کیے گئے۔ نیب نے رپورٹ عدالت عالیہ لاہور میں جمع کر ادی ہے۔ اگر نیب کے پاس پکے ثبوت ہیں تو جس طرح حزب اختلاف کے سیاستدانوں کو مہینوں تک جیل میں ڈالے رکھا اسی طرح چودھری برادران کو بھی اٹھا کر دکھائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خواجہ برادران کے معاملے کی طرح منہ کی کھانی پڑے۔ نیب کا رویہ حکمرانوں اور مخالفین کے ساتھ مختلف ہے لیکن ق لیگ تو حکومت میں شامل ہے اور کابینہ میں بھی موجود ہے، جب حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے اثاثے بڑھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو کوئی جرم نہیں۔ بہرحال چودھری برادران نے غلط کام کیے ہیں تو نیب سزا دلوا کر دکھائے۔