عمرانی دور کے دو سال، صرف خسارہ

408

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو دو سال ہو گئے ہیں۔ حکمرانوں نے کہا تھا کہ عوام کی چیخیں نکلیں گی، سو اس پر بھرپور طریقے سے عمل ہوا ہے۔ ہر فرد چیخ رہا ہے۔ ان دو برسوں میں کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا جس پر حکمران فخر کر سکیں۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ غریب کیا متوسط طبقے کو بھی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ حکمران ضروریات زندگی کی کوئی ایک شے بتا دیں جس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ نہ ہوگیا ہو۔ گندم پیدا کرنے والا ملک گندم درآمد کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر فخر امام اسمبلی میں پوچھ رہے ہیں کہ لاکھوں ٹن گندم کہاں غائب ہو گئی۔ ان کا منصب تو یہ تھا کہ عوام کو بتاتے گندم کون کھا گیا۔ سندھ پر الزام ہے کہ وہاں چوہے گندم کھا جاتے ہیں۔ فخر امام بتائیں کہ مرکز میں کون سے چوہے بیٹھے ہیں جو سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ گندم پاکستان کے عوام کی اکثریت کی بنیادی خوراک ہے لیکن وہ یا تو دستیاب نہیں یا غریب کی دسترس سے باہر ہو گئی ہے۔ کئی شہروں میں ایک کلو گرام آٹا 90 اور 120 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس کی تحقیقات کے لیے بھی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ پنجاب میں جو آٹا سرکاری نرخ پر فروخت ہو رہا ہے وہ کھانے کے قابل نہیں اور دکاندار کہتے ہیں کہ گاہک لے جائے تو واپس کر دیتا ہے۔ اس آٹے سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے اور روٹی بھی ٹھیک نہیں بنتی۔ چینی کے بحران پر کمیشن بنا کر اس کی رپورت عام کر دی گئی اور حکمران طبقے میں سے ہر ایک یہ ڈھول پیٹ رہا ہے کہ ایسا کام صرف عمران خان ہی کر سکتے تھے۔ لیکن تب سے چینی کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور اب 90 روپے اور 100 روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو بیٹھے چاٹتے رہیے۔ اس تحقیقاتی کمیشن پر فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا۔ شوگر مل مالکان اس تحقیقات کے خلاف عدالتوں میں چلے گئے ہیں اور بہت مہنگے وکیل کر لیے ہیں۔ اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں جواب اور جواب الجواب چل رہا ہے۔ جس طرح حزب اختلاف کے رہنمائوں کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے کیوں نہ شوگر مل مالکان کو بھی اندر کر دیا جائے۔ چینی کا بحران پیدا کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے مسلسل ڈھیل دی جا رہی ہے جس کا واضح مقصد اپنے لوگوں کو بچانا ہے۔پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والی آئل کمپنیوں کے خلاف کراچی کی عدالت میں سماعت ہو رہی ہے لیکن آئل کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران نے تفتیش میں شامل ہونے ہی سے انکار کر دیا۔ یہ ہے حکومت کی رٹ، اس کا اختیار یا بے اختیاری۔ ایک اور ظلم یہ ہوا ہے کہ دوائوں کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ کینسر کے مریضوں کے لیے لازم ایک دوا ایری میڈکس، جو چند دن پہلے تک 5 ہزار کی تھی اچانک 8 ہزار روپے کی ہو گئی۔ یہ وہ دوا ہے جو کینسر کے مریضوں کو کئی سال تک کھانی ہوتی ہے۔ دوائوں کی قیمت میں اضافے کا معاملہ اب سینیٹ کے سپرد کر دیا گیا۔ ایک نالائق وزیر ہوا بازی نے پوری فضائی صنعت کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ ایسے شخص کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ ڈھٹائی دیکھیے کہ وہ اب بھی وفاقی وزیر کے منصب پر براجمان ہے۔ گزشتہ جمعہ کو بھی غلام سرور سینیٹ میں اپنے موقف پر اصرار کر رہے تھے کہ ان کے پاس پائلٹوں کے خلاف ثبوت ہیں اور اسی دن ملائیشیا نے 18 پاکستانی پائلٹوں کے لائسنس درست قرار دے دیے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان دو برسوں میں کرپشن بڑھی ہے اور اسلام کی تاریخ سے ناواقف ایک دندان ساز صدر مملکت فرماتے ہیں کہ کرپشن تو رسول اکرمؐ کے دور میں بھی تھی اور کوڑوں کی سزا دی جاتی تھی۔ انہوں نے ’’نیا مدینہ‘‘ میں کرپشن کا جواز تلاش کر لیا۔ یہ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ حزب اختلاف منتشر ہے اور ابھی متحد اور متفق ہونے کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔ لیکن کیا حکومت کی صفوں میں بھی اتحاد ہے؟ ایسا ہرگز نہیں۔ حکومت کی نااہلی اور نالائقی سے حکمران طبقے میں بھی بے چینی ہے۔ منتخب افراد اپنے حلقہ انتخاب میں جاتے ہیں تو انہیں اپنے رائے دہندگان کے اعتراضات کا جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ صوبہ پنجاب افراتفری کا شکار ہے اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا متبادل تلاش کیا جا رہا ہے۔ عثمان بزدار نے 8 دن میں وزیراعظم سے تین ملاقاتیں کی ہیں اور ظاہر ہے کہ ہدایات لی ہوں گی کہ اب کیا کرنا ہے۔ عملاً پنجاب کے معاملات عمران خان چلا رہے ہیں۔ حکومت پر بدعنوانی کے جو الزامات ہیں ان کے بارے میں نیب خاموش ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا کا بس رپیڈ ٹرانسپورٹ (پی آر ٹی) منصوبہ کسی طرح مکمل ہونے ہی میں نہیں آرہا۔ کے پی کے حکومت کے ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی تک منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ کوئی انہیں بتائے کہ سہ ماہی تو کب کی گزر گئی۔ مالم جبہ کیس میں بدعنوانی کا الزام موجودہ وزیر دفاع پر ہے۔ لیکن نیب یہاں بھی خاموش ہے۔ عمران خان نے دھرنے کے دوران بجلی کے بل جلا دیے تھے اور بتایا کہ ان کے گھر کی بجلی کٹ گئی، موم بتیوں پر گزارہ ہو رہا ہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ عوام بھی موم بتی پر گزارہ کریں۔ نیپرا وفاقی ادارہ ہے جو آنکھ بند کیے بیٹھا ہے۔ اب تو سندھ کی عدالت عالیہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ کے الیکٹرک کا لائسنس معطل ہونا چاہیے۔ لیکن ایک کے الیکٹرک ہی کیا، بجلی فراہم کرنے والے تمام ادارے عوام دشمنی پر اترے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے ایک بات بالکل سچ کہی تھی کہ فوج اقتدار کے لیے لوگوں کو چھانٹتی ہے، انہیں لیڈر بناتی ہے۔ اب اگر اس حکومت کو سلیکٹڈ کہا جائے تو حکمران برا مانتے ہیں۔