کرپشن کے جواز کے لیے حضورؐ کے نام کا استعمال

442

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ کرپشن حضورؐ کے دور میں بھی تھی۔ لوگوں کو کوڑے پڑے تھے۔ قوانین نافذ کیے گئے اور اس زمانے کی متعین سزا دی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی حکومت یا عمران خان کی حکومت کی تعریفوں کے وہ پل باندھے کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ حضورؐ کے زمانے سے اپنی حکومت کا موازنہ کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت آتے ہی اعلیٰ سطح پر کرپشن ختم ہو گئی۔ مجھے بھروسہ ہے کہ میری پارٹی کے لوگ کرپٹ نہیں ہوں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے سند دے دی کہ ان کی پارٹی پاک صاف ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کہنے لگے کہ مالم جبہ بی آر ٹی پشاور اور بلین ٹری سونامی منصوبوں میں انکوائری ہونی چاہیے لیکن پھر ان کرپٹ لوگوں کو سند دے دی کہ یہ ٹاپ لیول کرپشن نہیں۔ بجا فرمایا بلین ٹری کا اعلان تو عمران خان نے کیا تھا اس سے اوپر کون ہے یہ تو صدر مملکت ہی بتا سکتے ہیں۔ صدر مملکت نے ان منصوبوں کی انکوائری کی بات تو کی ہے لیکن اسے بھی سند عطا کر دی ہے کہ کرپشن اور انکوائری میں فرق ہوتا ہے۔ صدر مملکت کو اپنے منصب کا خیال کر لینا چاہیے تھا اور اپنے ماضی کا بھی۔ عمران خان کے دور حکومت کو حضورؐ کے دور سے ملانے کی کوشش اور اپنی حکومت کے دور میں کرپشن کا جواز پیش کرنے کے لیے حضورؐ کے دور میں بھی کرپشن کے وجود کی بات کر گئے۔ کیا حضورؐ کی حکومت میں کسی کے خلاف انکوائری چل رہی تھی۔ آپؐ بڑے بڑے دعوے کرتے تھے اور کیا نعوذ باللہ یوٹرن لیتے تھے۔ اقتدار کی خاطر دماغ ٹھکانے سے کیوں ہٹ جاتا ہے۔ اس کا کوئی علاج بھی ہے کہ نہیں۔ صدر مملکت کو ایسے موازنے پر اللہ سے توبہ کرنی چاہیے اور عوام کے سامنے بھی معافی مانگنی چاہیے۔