نیب نے ملبہ عدلیہ پر ڈال دیا

353

اب تو حالات انتہا سے باہر ہوگئے ہیں اداروں کا ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنانا تو معمول تھا ہی لیکن اب عدالتی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ نیب کے سربراہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے نیب پر تنقید کا جواب یہ کہہ کر دیا ہے کہ مقدمات کے فیصلوں اور احتساب میں تاخیر کی ذمے دار عدالتیں ہیں۔ چیف جسٹس کے سوالات پر تحریری جواب میں سارا ملبہ عدالتوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ جواب میں شکوہ کیا گیا ہے کہ احتساب عدالتیں کم ہیں ایک ایک میں درجنوں مقدمات ہیں۔ 30 دن میں فیصلے کرنا ممکن نہیں۔ پچاس پچاس گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے۔ چیئرمین نیب نے الزام لگایا ہے کہ عدالتیں نیب قانون کے بجائے ضابطہ فوجداری پر عمل کرتی ہیں اور ضمانتوں میں عدالت عظمیٰ کے اصولوں پر عمل نہیں ہوتا۔ چیئرمین کے جواب میں یہ شکوہ بھی کیا گیا ہے کہ بیرون ملک سے معاونت ملنے میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔ پلی بارگین پر پابندی اور غلط عدالتی تشریح فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جواب میں بتایا گیا ہے کہ 120 نئی عدالتیں 2.86ارب روپے کی ضرورت ہوگی۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نئی عدالتوں کے لیے ریٹائرڈ سیشن ججوں اور اپیلوں کے لیے ریٹائرڈ ہائیکورٹ ججوں کو مقرر کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کے سوالوں کے جواب سے نئے سوالات نے جنم لیا ہے۔ نیب کے چیئرمین کے جوابات سے تو لگتا ہے کہ نیب ایک محتاج ادارہ ہے اسے ہر کام کے لیے عدالتوں، حکومتوں اور سیاسی شخصیات کے تعاون کی ضرورت ہے۔ عدالت عظمیٰ پر جو ملبہ گرایا گیا ہے اب اس کا جواب ملے گا جو حالات کو مزید خراب ہی کرے گا۔ پاکستان کے نظام کی تباہی کے آثار بہت واضح ہیں۔ ہر ادارہ دوسرے کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ حکمرانوں کی ساری محنت اور مشقت اپوزیشن کے مخصوص لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت نے کرپٹ لوگوں کا ٹولہ اپنے پاس جمع کرلیا ہے اور آٹا، چینی، پیٹرول مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ ان کے مقدمات کو سست رو بنایا جارہا ہے۔ اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ نیب کو صرف اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور لگتا بھی ایسا ہی ہے۔ چیئرمین نیب کے جواب میں ایسے ادارے کے خلاف بھی باتیں ہیں۔ وہ عدالتوں کو نیب کے ضابطوں کے مطابق چلانے کی بات تو کررہے ہیں لیکن خود نیب کو نیب کے ضابطوں کے مطابق نہیں چلارہے۔ عدالتوں کے ضمانتوں کے طریقہ کار پر تنقید کررہے ہیں اور نیب کے پلی بارگین کے طریقے پر پابندی کا شکوہ کررہے ہیں۔ آخر یہ پلی بارگین تھا ہی کیوں۔ ایک چور کو جو ایک ارب روپے چرا چکا ہے، صرف دس کروڑ لے کر ضمانت پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے عہدے پر واپس جا کر اس سے زیادہ کرپشن کرتا اور نیب کو بارگین کی رقم بھی نہیں ملتی۔ بہت سے لوگ تو بلی بارگین کے بعد ملک سے ہی چلے جاتے ہیں۔ نیب کی کل کارکردگی صرف حکومت مخالف لوگوں کے گرد شکنجہ کسنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نیب کو دھڑا دھڑ مقدمات درج کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ کچھ مقدمات اپنی کرپشن اور کچھ عام عدالتوں میں جانے دیں۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نیب میں مقدمات زیادہ ہونے کی ذمے دار عدالتیں تو نہیں بلکہ خود نیب ہے۔ اس کے مقدمات درج کرنے اور فیصلہ کرنے کی شرح میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نیب کی جانب سے نئی عدالتوں کے لیے رقم کی بات کی گئی ہے وہ تو دی جاسکتی ہے لیکن ریٹائرڈ ججوں کو کھپانے والی بات سمجھ سے بالا ہے۔ پوسٹ آفس، واٹر بورڈ، سندھ سیکرٹریٹ، محکمہ خزانہ اور ریلوے کسی بھی محکمے سے ریٹائرڈ ہونے والے فرد کو دوبارہ مقرر کرنے پر عدالتیں ہی پابندی لگاتی ہیں اس طرح عدلیہ کے بھی ریٹائرڈ لوگوں کو کھپانے کے لیے زیادہ سے زیادہ عدالتیں بنانے پر زور دیا جائے گا۔ فوج کے بعد عدلیہ دوسرا ادارہ بن جائے گی جس کے لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری ملازمت کے مزے لیں گے۔ فوج سے تو ریٹائرڈ اور حاضر سروس دونوں ہی طرح کے ہزاروں افسر و جوان مختلف سویلین اداروں میں کھپائے گئے ہیں۔ عدلیہ کو تو یہ راستہ روکنا تھا اب نیب کے نام پر یہ راستہ عدلیہ کے لیے بھی کھولنے کی بات ہورہی ہے۔ اس وقت اگر نیب چاہے تو اضافی رقم اور اضافی عدالتوں کے بغیر بھی مقدمات کا فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ سب سے پہلا کام تو یہ کیا جائے کہ سیاسی بنیادوں پر مقدمات کا اندراج بند کیا جائے۔ مزید مقدمات سے تو ہر طرح بچا جائے۔ جو مقدمات ہیں ان کا فیصلہ جلد کیا جائے۔ نیب کے جواب کے بعد عدلیہ بھی خاموش نہیں رہے گی اور جو حالات نظر آرہے ہیں وہ ملک میں ہر سطح پر اداروں کے تصادم والے ہیں اور یہ بات ان متصادم اداروں میں سے کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ اس کا فائدہ کوئی اور ادارہ اٹھائے گا۔ سارے فساد میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور اپوزیشن نیب قوانین میں ترمیم کی تیاری میں مصروف ہیں جس میں چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کی تجویز بھی ہے۔ بلکہ حکومت اپوزیشن کی مشاورت کے بغیر بھی چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکے گی۔ دوسری طرف اپوزیشن رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر ترمیمی مسودہ بدنیتی پر مبنی ہوا تو منہ پر ماردیں گے۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ سارا معاملہ ہی بدنیتی پر مبنی ہے اور بدنیتی سے کیے جانے والے کاموں کے نتائج ایسے ہی نکلتے ہیں جیسے نیب کے نکلے ہیں۔