احتساب کا صحیح راستہ عام انتخابات

420

عدالت عظمیٰ اور ملک کی بیش تر سیاسی جماعتوں نے موجودہ نیب کو یکسر ناقص قرار دیا ہے لیکن ستم ظریفی یہ کہ کوئی بھی موجودہ نیب سے جان چھڑانے کے لیے تیار نہیں اور نہ نیب کے قانون میں اصلاح کے لیے کوئی بنیادی ترمیم کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ نیب قوانین میں حکومت کی مجوزہ ترامیم کا جو مسودہ سامنے آیا ہے اس کے مطابق اس میں بنیادی تبدیلی نظر نہیں آتی زور حکومت کے اس مجوزہ مسودہ میں نیب کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں چار سال کی توسیع پر دیا گیا ہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ عدالت عظمیٰ نے نیب میں جن نقائص کی نشاندہی کی ہے حکومت کی مجوزہ ترامیم میں ان کی درستی کے لیے کوئی تجویز شامل نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح طور پر کہا ہے کہ نیب کے تفتیشی افسروں میں اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں ہے۔ نقائص سے بھرپور رپورٹ ریفرنس میں تبدیل کر دی جاتی ہے۔ تفتیشی افسروں کو قانونی پہلووں کا علم نہیں اور جہاں فیصلے تیس روز میں ہونے چاہئیں وہاں تیس سال لگ جاتے ہیں۔
سب اس بات پر متفق ہیں کہ نیب کا موجودہ ادارہ ایک آمر نے اپنے اقتدار کے دوام کے لیے قائم کیا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس آمر کے بعد کی حکومتوں نے بھی نیب کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا اور یہ بات گھن کی طرح سیاست کی جڑوں میں سرایت کر گئی اور اس گھن کو جڑوں سے صاف کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
پاکستان غالباً واحد ملک ہے جہاں سیاست اور معاشرہ کے دوسرے حصوں میں بدعنوانی اور سنگین جرائم کے خاتمہ کے لیے احتساب کا یہ عمل اختیار کیا جاتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بدعنوانی اور جرائم پر احتساب کا جو طریقہ ہے وہ یکسر مختلف ہے۔ ہندوستان کی مثال پر لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہے۔ وہاں سیاست دانوں اور دھاندلیوں میں ملوث افراد کے احتساب کا طریقہ بالکل مختلف ہے جو بڑی حد تک عوام میں مقبول ہے۔ وہاں بدعنوانی، مالی دھاندلیوں اور سنگین جرائم کی پہلے CBI کا ادارہ گہرائی میں جا کر تفتیش کرتا ہے اور اس تفتیش کے نتیجے کی بنیاد پر عدالت میں مقدمہ دائر کیا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی رو رایت نہیں بخشی جاتی۔ گزشتہ مئی میں CBI نے ہندوستان کے میجر جنرل بابا جی رائو اور متعد فوجی افسروں کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں تفتیش کے بعد عدالت میں مقدمے دائر کیے ہیں۔ CBI ایک سابق مرکزی وزیر چدمبرم کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش کر رہا ہے۔ گزشتہ سال CBI نے چار ہزار سے زیادہ سرکاری افسروں کے خلاف بدعنوانی اور رشوت ستانی کے مقدمات دائر کیے تھے۔ ہندوستان میں احتساب کے اس طریقہ کار پر کسی کو اعتراض نہیں اور نہ CBI کے سربراہ کے تقرر پر بھی کوئی شور مچتا ہے۔ CBI کا سربراہ وزیر اعظم کسی اعلیٰ سرکاری افسر کو مقرر کرتا ہے اس کا انتخاب وزیر اعظم کی صدارت میں ایک سلیکشن کمیٹی کرتی ہے، پاکستان کی طرح نیب کے سربراہ کا انتخاب حکمران اور حزب مخالف کے رہنما نہیں کرتے۔
امریکا میں بھی بدعنوانیوں اور سنگین جرائم کے لیے نیب ایسا نہیں ہے۔ وہاں FBI جاسوسی سے لے کر دو سو جرائم کی تفتیش کرتا ہے جس کے بعد FBI اپنی تفتیش کی بنیاد پر مقدمہ عدالت میں پیش کرتا ہے۔ FBI کا سربراہ صدر دس سال کے لیے مقرر کرتا ہے۔ یہ سربراہ اٹارنی جنرل اور وزارت انصاف کے تحت ہوتا ہے اور اسی کو جواب دہ ہوتا ہے یوں اس عمل میں کسی سیاست دان کے خلاف انتقامی کارروائی کا کوئی احتمال نہیں رہتا۔
برطانیہ میں بھی پاکستان کے نیب کی طرح احتساب کا کوئی ادراہ نہیں۔ برطانیہ میں سیاست دان ہوں یا کوئی اور شخص ہو اس کے خلاف اگر کسی بدعنوانی، مالی دھاندلی اور دھوکا دہی کا الزام ہو تو اس کا معاملہ SFO سیریس فراڈ آفس کو پیش کر دیا جاتا ہے جو خود کوئی سزا نہیں دیتا بلکہ یہ معاملہ تحقیقات کے بعد عدالت کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد سیاست دانوں اور سابق وزرا کے کسی احتساب کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہاں البتہ حکومت اور وزرا کے احتساب کا طریقہ کار واضح ہے جس کے لیے کابینہ کے مختلف محکموں کے لیے پارلیمنٹ کی سب کمیٹیاں ہیں جن کی باقاعدہ سماعت ہوتی ہے اور وزرا ان کمیٹیوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اپنی وزارتوں کی پالیسیوں اور حکمت عملی کی خامیوں اور کوتاہیوں کے بارے میں۔ اس طریقہ سے احتساب کا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے اور وزارت کے خاتمے کے بعد کسی ’’نیب‘‘ ضرورت باقی نہیں رہتی۔
ایک حقیقت جس کا نیب اور اس کے طریقہ کار پر بحث میں کہیں کوئی ذکر نہیں وہ یہ سوال ہے کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے احتساب کا صحیح طریقہ کیا ہونا چاہیے۔ بلاشبہ سیاست دانوں، سابق وزرا اور موجودہ حکمرانوں کے احتساب کا صحیح راستہ صرف ایک ہے وہ ہے عام انتخابات کا راستہ اور جمہوری نظام میں یہی راستہ صائب راستہ ہے۔ عام انتخابات میں عوام اپنے تجربات کی بنیاد پر صحیح احتساب کر سکیں گے اور اسی بنیاد پر اپنے صحیح نمائندے منتخب کر سکیں گے، بشرطیکہ یہ انتخابات بغیر کسی مداخلت کے آزادنہ اور شفاف ہوں۔