ایران میں سی آئی اے کے جاسوس کو پھانسی دیدی گئی۔ ایک خبر، آج تحریر کا آغاز اسی خبر سے کرتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں ایک سزا یافتہ جاسوس کو سزاے موت سے بچانے کی خاطر اسے اپیل کا حق دیا جا رہا ہے اس فیصلے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمارے قوانین کے مطابق کلبھوشن کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود ہے، انہیں یہ حق عالمی عدالت انصاف نے پاکستانی قوانین کے مطابق دیا ہے۔ دوسری خبر برادر اسلامی ملک ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی استنبول کی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کی ہے اس کے برعکس ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں چند بااثر ہندو گھرانوں کو نوزانے اور مہاراجا ہندوستان کو خوش کرنے کی خاطر سرکاری زمین پر بیت المال سے مندر بنانے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کنٹینر خان نے اس مندر کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی ہے۔ جس کی درخواست وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے وزیراعظم سے ملاقات میں کی تھی۔ اس ملاقات میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کا وفد بھی شریک تھا۔ مندر کی تعمیر کے اس فیصلے کیخلاف حکومت کو سخت عوامی رد عمل کا سامنا ہے گو کے عدلیہ کی طرف سے حکم امتناع کی درخواست خارج کی جا چکی ہے۔ دونوں ایوانوں میں اس کی حمایت اور مخالف بیانات بھی سامنے آئے جس کے بعد کنٹینر خان نیازی نے بیان جاری کیا کہ مذکورہ مندر بنے گا بالضرور بنے گا اور اسی جگہ پر بنے گا جس جگہ زمین الاٹ کی گئی۔ وزیر اعظم کا یہ بیان ان کی ضد اور ہٹ دھرم طبیعت کا عکاس ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ مذہبی امور کے وزیر نے قرآن و سنت سے رجوع کیے بغیر وزیر اعظم سے گرانٹ کی اپیل کی اور مذہب سے نابلد وزیر اعظم جنہیں خاتم النبیین بھی صحیح ادا کرنا نہیں آتا ملکی قوانین کے برخلاف اور اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کیے بغیر اس پر ہاں کر دی نہ صرف ہاں بلکہ اس پر ان کا اصرار بھی ہے۔ گویا یہاں بھی معاملہ ابھی نندن کی طرح کا ہے، نہ کابینہ کا کوئی اجلاس نہ متعلقہ ادروں سے مشاورت نہ ایوان بالا اور زیریں میں اس پر کوئی بحث اسے چائے کی پیالی خشک ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا۔
مندرجہ بالا خبریں دو برادر اسلامی ممالک کی ہیں اور بہت پرانی بھی نہیں جبکہ اس کے مقابل دوسری تمام خبریں اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہیں جسے اسلامی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے تینوں ہی آزاد اسلامی ریاستیں ہیں تاہم اگر تمام خبروں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو دو برادر اسلامی ملک ایران اور ترکی اپنے فیصلوں میں آزاد اور خود مختار نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان کے فیصلے اس کی آزادی اور خود مختاری پر ایک سوالیہ نشان ہے اور بظاہر نہیں یقینا یہ کسی دبائو اور ڈکٹیشن کا شاخشانہ ہیں جس کے پیچھے ایک مقروض قوم کا کاسہ ٔ گدائی ہے بظاہر ہم اپنے آپ کو ممتاز کہتے رہیں مگر ہمیں تمام برادر اسلامی ملک مسکین اور دیگر اقوام عالم خصوصاً امریکا اور اس کے اتحادی اپنا غلام اور کاسہ لیس تصور کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ان کی ہر بات پر ہماری ہاں ہوا کرتا ہے اور اس ہاں میں پہل ہمیشہ ہماری عسکری قیادت کی ہوتی ہے منتخب جمہوری حکومتیں تھوڑا لیت و لعل کا مظاہرہ کرتی ہیں مگر مرتا کیا نہ کرتا بالآخر انہیں بھی گھٹنے ٹیکنے پڑ جاتے ہیں۔ ایوب و یحییٰ خان اور کیا جنرل ضیاء اور پرویز مشرف سب نے خطے میں ہماری اہمیت ’’سماجی حیثیت، طاقت اور دینی حمیت کا سودا ان سامراجوں سے نہیں کیا؟ ان کی جی حضوری کے نتیجے میں ہم نے اپنے ملک کی معاشرت، معیشت، سیاست، ملکی سالمیت اور داخلی امن سب کچھ ان کی ڈکٹیشن پر چھوڑا اور اقوام متحدہ کے ناروا سلوک کے باوجود اس کے چارٹر کے احترام میں خود اپنے آپ کو تہہ تیغ کیا پھر بھی ہم آج تک انہیں کسی معاملے میں راضی نہ کر سکے۔
ہماری عسکری قیادت جنہیں کچھ ڈر اور خوف اور مصلحت کی خاطر عام فہم زبان میں اسٹیبلشمنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے ایک لمبے عرصہ تک جمہور کا گلا گھونٹ کر ملک پر حکمرانی کی ہے نہ اقوام عالم میں پاکستان کے تشخص اجاگر کرنے میں کوئی کردار ادا کیا اور نہ ہی آئین پاکستان کے حلف کے مطابق ملک و ملت کی حفاظت، سر بلندی اور رہبری کا فریضہ انجام دیا جس کے باعث ان کی عزت و وقار میں روزانہ کے حساب سے کمی آتی گئی، پہلے دبی زبان میں اِکا دُکا اس کا اظہار ہوا کرتا تھا اب رفتہ رفتہ زبان زد عام ہوتی چلی جا رہی ہیں، خاکم بدہن راقم کو مستقبل قریب میں ان کے خلاف ایک منظم جمہوری طاقت باقاعدہ بر سر پیکار ہوتی نظر آرہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے ملک و ملت کی مزید بربادی کا سبب ہوگا۔ راقم اپنے خدشات کے ثبوت میں ملک کے ایک ممتاز سیاستدان جو خود کو باغی کہتے ہیں اس لفظ اسٹیبلشمنٹ کے بجائے کھلے عام عسکری قیادت کے خلاف الزامات سے بھرپور پریس کانفرنس کی جس نے جہاں ملک کے سنجیدہ طبقے میں اضطراب اور انہیں کچھ سوچنے پر راغب کیا ہے وہیں ان کی اس پریس کانفرنس کو عوام میں بھرپور پزیرائی بھی حاصل ہوئی۔ بعد ازاں سینیٹ میں مولانا عطاء الرحمن کی تقریر جس کے جواب میں سینیٹر سیف کی جوابی تقریر جو نادانی کی بنیاد پر انھی عسکری قوتوں کے خلاف چلی گئی انہیں قطعاً احسن نہیں کہا جا سکتا اب تواتر کے ساتھ ان کی ان خامیوں جس کا موقع انہوں نے خود ہی دیا کھلے عام تنقید کی جانے لگی ہے جس میں سر فہرست ایک شکایت یہ کہ ہماری عسکری قوت نے کشمیر کو کسی بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں ہمارے اصلی دشمن کی گود میں ڈال دیا اور اپنے حلف وفاداری کی توقیر نہ کی، دوسرے ملکی سیاسی معاملات میں ان کی مسلسل مداخلت تیسرے ہر بڑے اداروں میں حاضر اور ریٹائرڈ لوگوں کی تعیناتی نے عام شہری کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ ملک کے تمام بڑے اداروں میں قابلیت اور صلاحیت کے باوجود ان
کی انٹری ممکن نہیں لہٰذا ہمارے ملک کہ یہ لعل و گوہر دوسرے ممالک کی طرف رجوع کرتے ہیں اور غیر ممالک کی تعمیر و ترقی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ ایک لمبی چارج شیٹ ہے جو ہم روزانہ ہی کسی نہ کسی سے ہر جگہ سنتے رہتے ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ ہماری عسکری قوت ہم سے کہیں زیادہ اس بارے میں معلومات رکھتی ہے۔ مندرجہ بالا معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان بننے سے لیکر آج تک ملک بھر میں جاری سیاسی اور عسکری رسہ کشی کے خاتمہ کو ممکن بنانے کے لیے جہاں عوامی نمائندگان اور ملک کی مقتدر سیاسی جماعتوں سے جس ذمے داری کی توقع کی جاتی ہے اس کا جواب عسکری قیادت کی طرف سے بھی خلوص نیت اور حب الوطنی کے جذبات کے ساتھ دیا جانا چاہیے اس لیے کہ ہر دو ملک کے وفادار اور اس کی سالمیت اور حفاظت کے خاطر اپنی جان نچھاور کرنے کے دعویدار اور ہر گھڑی تیار بھی ہیں بد اعتمادی کی فضاء اس وقت پیدا ہوتی جب مسند اقتدار پر بیٹھی حکومت اس کے وزیر اور مشیر جگہ جگہ یہ کہتے پھریں کہ حکومت وقت اور فوج فلاں فلاں معاملات میں ایک پیج پر ہیں گویا حکمران سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ ملک کی عسکری قوت تمام اپوزیشن اور اس کے ووٹر ایک دوسرے کی ضد اور مخالف ہیں یہی نہیں غداری کے فتوے اس کے علاوہ ہیں۔ وسائل اور اختیارات کا منبع ہونے کی صورت میں ہماری عسکری قوت کی زیادہ ذمے داری ہے کہ وہ انہیں ملک کے بہتر مفاد میں التجاء اور تلقین کرتی رہا کرے کہ آئین پاکستان کی روح سے تو وہ پابند ہیں کہ حکومت وقت کی ہر جائز بات کا احترام کریں گے تاہم اسلامی اخوت، انکساری اور رواداری کا تقاضا ہے کہ وہ نہ صرف ملک کے تمام طبقات کی جان مال عزت آبرو کی حفاظت کریں۔ اگر ہماری عسکری قوت ملک میں اس فضاء کو بنانے میں کامیاب ہو گئی تو سمجھ لیجیے کہ پھر کوئی کلبھوشن، ریمنڈ ڈیوس یا سنتھیا رچی ہمارے ملک کے مظلوم اور پسے طبقے کو اپنے ساتھ ملا کر اس کی سالمیت اور اس کے اندرونی امن کو کبھی برباد نہیں کر سکیں گے۔