عمل کا تقاضا

288

یہ کیسی انہونی ہے کہ ریاست مدینہ کا رٹا لگانے والوں نے قرآن فرقان کا ترجمہ پڑھنا بھی پسند نہ کیا۔ وطن عزیز کے بہت کم سیاست دان ایسے ہیں جنہوں نے قرآن پاک کو چومنے کی غرض ہی سے دیکھا ہے۔
والد محترم بتاتے تھے کہ کسی معاملے میں بھارت کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تو سردار پٹیل آئے اور مسلمانوں سے کہا تم اللہ اکبر کا نعرہ مت لگایا کرو تمہیں احساس نہیں کہ اس نعرے میں کتنی قوت ہے یہ ملک کے در وبام کو ہلا دیتا ہے۔ تحریک آزادی کے دوران میں بھی جیل میں تھا میرے ساتھ کچھ مسلمان رہنما بھی تھے وقت گزاری کے لیے کتب بینی کے سوا کوئی مشغلہ نہیں تھا۔ دوسری کتابیں پڑھ پڑھ کر اکتا گئے تو ہم نے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا شروع کردیا۔ جوں جوں ترجمہ پڑھتا گیا یہ احساس بڑھتا گیا کہ اگر مسلمان رہنما اپنی مذہبی کتاب پر عمل کرتے تو میرے ساتھ بہت سے ہندو رہنما بھی مسلمان ہوجاتے۔ ہم نے اس بارے میں بہت سوچا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم میں اور مسلمان رہنمائوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم بھی قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ رہے ہیں اور مسلمان رہنما بھی ترجمہ پڑھ رہے ہیں اب فیصلہ تم ہی کرو اگر مسلمان رہنما حقیقی معنی میں مسلمان ہوتے تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی مسلمان ہونے کی ترغیب دیتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہماری طرح انہیں بھی حرام وحلال کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ ہم بھی شراب پیتے تھے وہ بھی شراب پیتے تھے بلکہ ہر وہ کام کرتے تھے جس سے اسلام نے روکا ہے یہ اور ہم ایک ہی ہیں صرف نام کا فرق ہے۔ انہیں ترجیح دینا عقل مندی نہیں تم لوگ پاکستان نہیں گئے جو اس حقیقت کا عکاس ہے کہ تمہیں بھارت سے پیار ہے۔ اور تمہارے اس جذبے کا احترام ہم پر واجب ہے تم ہندوستانی بن کر رہو تمہیں کوئی پریشانی کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ تمہارے حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمے داری ہے مگر تم بھی اپنی ذمے داری ایمان داری سے نبھائو۔ میں اس حقیقت سے کبھی انکار نہیں کروں گا کہ میں پاکستان کا مخالف تھا۔ ہم اکٹھے رہ کر عالمی قوت بن سکتے تھے مگر جو ہونا تھا ہو چکا اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہندو بھارت ماتا کی تقسیم پر ناراض ہیں مگر یہ عارضی معاملہ ہے رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہوجائے گا اور ہم پہلے کی طرح ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہونے لگیں گے۔
سردار پٹیل نے کتنا سچ کہا تھا کتنا جھوٹ بولا تھا اور کتنا عمل کیا تھا اس کے بارے میں کچھ کہنا وقت کا زیاں ہوگا۔ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلم رہنما پکے اور سچے مسلمان ہوتے تو ان کے بہت سے ہندو ساتھی بھی مسلمان ہوجاتے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اسلام بزرگان دین کی خوش اخلاقی، خوش کلامی اور ان کے طرز زندگی کے باعث ہی پھیلا اور پھولا۔ جب سے مسلمانوں نے اپنی طرز زندگی اپنا طرز کلام اور اپنے طور طریقے بدلے بہت کچھ بدل گیا۔ ریاست مدینہ کے بنانے کے دعوے دار مال بنانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ ان کا طرز کلام اور انداز گفتگو سن کر تو اہل وطن بھی بد ظن ہونے لگے ہیں۔ اسلام عمل کا متقاضی ہے زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کرنا بے معنی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسلام کے احکامات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔
سیدنا عمرؓ کے دور حکومت میں چرواہے کے بیٹے نے باپ سے کہا آج بھیڑیا اس کی بکری کے بچے کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ باپ کے منہ سے بے ساختہ نکلا لگتا ہے امیر المومنین عمرؓ کا انتقال ہوگیا ہے کیونکہ جب تک عمرؓ زندہ تھے کوئی بھیڑیا کوئی درندہ بکریوں کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا یہ ہے ریاست مدینہ کا کمال اور ایک مسلمان کی حکمرانی۔ ریاست مدینہ بنانے سے پہلے درندوں اور انسان نما درندوں سے دوسروں کا حق دلائو۔ مگر آپ کی حکومت تو عوام سے جینے کا حق بھی چھیننے کے جتن کررہی ہے۔ اگر عوام سے جینے کا حق چھین لیا جائے تو ریاست مدینہ کس کے لیے بنائی جائے گی اس کا فائدہ کس کو ہوگا۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ پھر اسلامی حکومت قائم کیوں نہیں ہوئی۔ نظام شریعت نافذ کیوں نہیں کیا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تحریک آزادی چلانے والوں میں سے اکثریت اسلام پر عمل پیرا ہی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دینی جماعتیں قیام پاکستان کی مخالف تھیں۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف تھیں کہ جو لوگ اسلام پر عمل نہیں کرتے وہ عوام کو اسلامی ریاست کیسے دیں گے۔ اسلامی قوانین پر کیسے عمل درآمد کرائیں گے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کا سوچتے ہوئے ہمارے ہاتھ پائوں کانپنے لگتے ہیں اور دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتیں ہیں۔ چین میں ملاوٹ کرنے والوں کو سزائے موت دی جاتی ہے اور اب گٹر کا ڈھکن چوری کرنے والوں کو بھی سزائے موت دینے پر غور کیا جارہا ہے۔