جی ہاں! بہت یاد آتا ہے وہ گھر جہاں زمین اور آسمان ہمارے ساتھ رہتے تھے یا ہم زمین اور آسمان کے ساتھ رہتے تھے زندگی فطرت کے قریب تھی جہاں سورج روز ہمارے گھر آتا تھا، جہاں ہر رات کو چاند تاروں سے ملاقات ہوتی تھی۔ اس وقت کراچی میں جولائی کی گرمیوں کا تیس سالہ ریکارڈ بھی ٹوٹ رہا ہے تو ہمیں اپنے بچپن کی گرمی اور وہ چھوٹا سا گھر یاد آرہا ہے جہاں ہم صبر و شکر کے ساتھ رہتے تھے جگہ تو اب بھی موجود ہے لیکن بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے پہلے تو ہم جس گھر میں ہم رہتے تھے اسی طرح کے گھر تقریباً تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر ایک کے ہوتے تھے پہلے ایک کمرہ یا جھونپڑی جو چاروں طرف سے بند، سردیوں میں سب لوگ اس میں سوتے تھے گرمیوں میں یہ خالی رہتا اس کمرے کی چھت عموماً ٹین کی ہوتی تھی گرمیوں میں ٹین کی تپش سے گرمی کی شدت کا اندازہ لگایا جاتا، اسی طرح بارش کے دنوں میں ٹین کے چھت کی آواز بارش کی تیزی اور کمی کا پتا دیتی تھی، جب بہت تیز بارش ہوتی اور ہوائیں چلتیں تو والدہ صاحبہ چھت کی بلی پکڑ لیتیں کہ کہیں کوئی ٹین اڑ نہ جائے اور ہم سے کہتیں بچوں تم سب آیت الکرسی پڑھو اور اللہ میاں سے دعا مانگو کہ کہیں کوئی ٹین اڑ نہ جائے، اور کسی کو زخمی نہ کر دے۔
کمرے کے آگے ایک چھپر ہوتا جو تین طرف سے کھلا ہوا ہوتا گرمی اور سردی دونوں موسم میں یہ چھپر استعمال ہوتا، گھر کے بچے بڑے بوڑھے اسی دالان میں رہتے اس چھپرے کو دالان بھی کہا جاتا، اس دالان میں ایک نعمت خانہ ہوتا، جس میں پکی ہوئی چیزیں بحفاظت رکھی جاتیں یہ نعمت خانہ لوہے کی جالیوں کا بنا ہوا ہوتا، کبھی کبھی اندر چیزوں میں چیونٹیاں لگ جاتیں اس مسئلے کا حل ایسے نکالا جاتا کہ چار عدد مٹی کے پیالے لے کر اس میں پانی بھر کر نعمت خانے کے چاروں پائے اس میں رکھے جاتے اس طرح اندر رکھی ہوئی چیزیں چیونٹیوں سے محفوظ ہو جاتیں۔ اسی طرح ایک چیز چھیکا ہوتا جو دالان کی چھت سے لٹکایا جاتا اس میں کھانے پینے کی چیزیں ہوتیں جو شام تک محفوظ رہتیں کبھی کبھی کوئی چیز دوسرے دن تک ٹھیک رہتیں۔ دالان کے بعد بیرونی دروازے تک کھلا حصہ ہوتا گرمی کے دنوں میں گھر کے بڑے اسی کھلے آنگن میں سوتے گھر کے عموماً یہی تین حصے ہوتے بند کمرہ اس کے بعد دالان اور دالان کے بعد کھلا آنگن۔ اگر کسی کا کھلا آنگن تھوڑا بڑا ہوتا تو وہ اس میں ایک چھوٹا سا کمرہ بنالیتا، اِسے اُس دور کا ڈرائنگ روم بھی کہا جاسکتا ہے۔ پھر اسی چھوٹے گھر میں کبھی خالہ کبھی پھوپھی اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے آجاتیں ہم لوگ بڑے خوش ہوتے ایک دفعہ منور صاحب تقریر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ایک وقت تھا جب ہمارے ایک کمرے کے مکان ہوتے اسی میں کبھی خالہ یا پھپھو اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے آجاتیں اب ہمارے گھروں میں بیڈ روم ہیں، ڈرائنگ روم ہے، ڈائنگ روم ہے لیکن اب کوئی رہنے کے لیے نہیں آتا۔ دالان اور کھلے ہوئے حصے کے سنگم پر چٹائی بانس اور کچھ کچی مٹی کی دیوار بناکر باورچی خانہ بنایا جاتا، جب کچھ عرصے بعدکچھ پیسوں کی بچت ہوتی چٹائی بانس اور کچی مٹی کی دیوار کی جگہ پکی اینٹوں کی دیوار بنالی جاتی، کھانا پگانے کے لیے لکڑی کا استعمال ہوتا ہماری نانی کچی مٹی کا بڑا خوبصورت چولھا بناتی تھیں دیگر محلے دار بھی ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے۔ چولھا اس طرح بنتا کہ زمین سے آٹھ دس انچ کی اونچائی پر تین دیواریں بنائی جاتیں اس پر سالن اور دیگر اشیاء تیار کی جاتیں اسی چولھے سے متصل ایک انگیٹھی نما چولھا بنایا جاتا جس میں گرم راکھ اور انگارے وغیرہ رکھے جاتے جو دال یا سالن اس چولھے پر پک کر تیار ہوتا اس کی دیگچی یا پتیلی اسی انگیٹھی پر رکھ دی جاتی تاکہ نیچے انگاروں کی گرمی سے وہ چیز گرم رہے جب کہ اصل چولھے پر اب روٹی پکائی جاتی، جب وہ اختتام کے قریب ہوتی امی آواز لگاتیں بچوں دسترخوان بچھائو اور وہ دسترخوان کیا ہوتا کوئی پرانی چادر یا ٹاٹ کی بوری، سالن روٹی آنے سے پہلے اس دستر خوان کو دیگر لوازمات سے آراستہ کیا جاتا یعنی جگ گلاس پلیٹیں وغیرہ رکھی جاتیں، ہم میں سے کوئی کہتا کہ امی گرمی بہت ہورہی دو آنے کا برف منگا لیں جواب میں ایک زبردست ڈانٹ سننے کو ملتی کہ بڑے اللے تللے سوجھ رہے ہیں میں نے رات کو صراحی میں پانی بھر دیا تھا اب وہ اچھا ٹھنڈا ہوچکا ہو گا ہاں اتوار والے دن چونکہ سب لوگ ہوتے اس لیے چار آنے کا برف منگوالیا جاتا۔
رات کے وقت روشنی کے لیے تین چیزیں استعمال ہوتیں، چراغ، لالٹین اور پیٹرو میکس یعنی گیس بتی۔ چراغ کو کمرے کے اندر رکھا جاتا تاکہ ہوا سے بجھ نہ جائے لالٹین کو دالان میں لٹکایا جاتا تاکہ پورے گھر میں روشنی رہے گیس بتی یعنی پیٹرو میکس کا استعمال اس وقت ہوتا جب گھر میں کچھ مہمان آئے ہوئے ہوں یا کوئی چھوٹی موٹی تقریب ہوتی، گیس بتی ہر گھر میں نہیں ہوتی بلکہ یہ کرائے پر مل جاتی۔ ہمارے محلے میں ایک صاحب جو گیس بتی ٹھیک کرنے اور کرائے پر دینے کا کاروبار کرتے تھے۔ ہم جب کہتے ہیں زمین و آسمان ہمارے ساتھ تھے تو وہ غلط نہیں آج گرائونڈ فلور پر رہنے والے بھی زمین کو دیکھ نہیںسکتے۔ ہمارے بچپن میں زمین تینوں جگہ یعنی کمرہ، دالان اور کھلے آنگن میں ہمارے ساتھ رہتی، کچھ عرصے کے بعد کمرے میں سمنٹڈ فرش پڑگیا لیکن دالان اور آنگن میں تو کچی زمین ہوتی۔ اس زمانے میں پانی، سیوریج، بجلی اور گیس کی لائنیں نہیں پڑی تھیں پانی ہم روزآنہ سرکاری نل سے بھر کر لاتے، میری ذمے داری پورے گھر کا پانی بھرنا ہوتا تھا جس میں وقت، محنت اور مشقت سے کام لیا جاتا۔ اس چھوٹے سے گھر میں عارضی غسل خانہ بنایا جاتا جو بعد میں مستقل ہو گیا ایک چیز جس کو آج کے دور میں واش روم کہتے ہیں، مختلف ادوار میں اس کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ایک وقت تھا جب گھروں میں بھنگی آتے اور بیت الخلا کی صفائی کرتے، پھر کچھ ترقی ہوئی لوگوں نے گھروں میں کوئیں کھدوانے شروع کیے اور جمعداروں کے نخروں سے نجات مل گئی۔ ترقی کا سفر جاری تھا بلکہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے پانی اور سیوریج کی لائنیں پڑ گئیں پانی سرکاری نل سے بھر کر لانے کی مشقت سے نجات مل گئی اور سیوریج کی لائنوں نے اور آسانیاں پیدا کردیں۔
یہ تھا ہمارا چھوٹا سا گھر جہاں بارش کے دنوں میں ہم بارش کے پانی سے نہاتے اور کھلے آنگن میں جمع پانی میں کاغذ کی کشتیاں بناکر چلاتے گرمی میں گھر سے باہر زیادہ دیر ہوجاتی تو واپسی پر امی کی ڈانٹ سننے کو ملتی، سردی میں اگر سوئیٹر یا گرم کپڑا پہنے بغیر باہر نکل جاتے تو واپسی پر پھر امی کی ڈانٹ سننے کو ملتی۔ آج یہ سب ماضی کی یادوں کا ایک سرمایہ ہیں۔ اس زمانے میں گھر سے باہر کی بھی ایک دنیا تھی جس پر پھر کسی مناسب موقع پر بات کریں گے۔