حکمرانوں کی لڑکھڑاہٹ

465

جب کبھی ہم کوئی نیا لفظ سنتے یا پڑھتے تو اپنے والد محترم سے معنی پوچھتے وہ صرف و نحو کے ماہر تھے۔ مدرسہ عالیہ ریاست رام پور (انڈیا) میں پڑھایا کرتے تھے۔ لفظ سنتے ہی اس کے بارے میں تفصیل سے بتایا کرتے تھے۔ لفظ کے پہلے حرف پر زبر، زیر یا پیش ہونے کی صورت میں اس کے معنی کیا ہوں گے دوسرے اور تیسرے حرف کے بارے میں بھی اچھی طرح سمجھاتے تھے۔ حشر، خبر، قبر اور اسی طرح کے بہت سے لفظوں کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ مسکون الوسط کو شرعی ضرورت کے تحت متحرک یا ساکن کیا جاسکتا ہے۔ ایک بار ہم نے کسی سے ایک نیا لفظ سنا اور والد محترم سے اس کے معنی پوچھے تو انہوں نے حکمت کی کتاب دیتے ہوئے کہا کہ فلاں صفحہ پڑھو جب ہم نے ان کا بتایا ہوا صفحہ پڑھا تو بہت شرمندہ ہوئے ایک ہفتے تو ہم والد محترم کے سامنے ہی نہیں آئے۔ اور پھر… ہم نے تہیہ کرلیا کہ کسی بازاری لفظ کے بارے میں کبھی نہیں پوچھیں گے اور یہ معاملہ وقت کے سپرد کردیا۔ البتہ پڑھے ہوئے لفظ کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو ضرور پوچھ لیا کرتے تھے۔ پنگا بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے جس کے معنی ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
ایک دن ہم مغرب کے قریب چہل قدمی کرتے ہوئے اپنی چوکی کی طرف آرہے تھے۔ لانگری نے آواز لگائی ڈاکٹر صاحب بکریاں ہانکتے لانا اور ہم بکریاں چوکی کی جانب دوڑانے لگے مگر مشکل یہ پیش آئی کہ دو بکریاں چوکی کی طرف دوڑ لگاتیں تو چار بکریاں واپس جنگل کی طرف بھاگنے لگتیں۔ بڑی مشکل سے ساری بکریاں چوکی تک لائے تو سپاہی سے لے کر پلاٹون کمانڈر تک سب ہی قہقہہ لگا رہے تھے۔ ہم نے پوچھا ارے بھائی اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے پہلی بار ہمارا واسطہ بکریوں سے پڑا تھا اس لیے قابو نہیں آرہی تھیں۔ ویسے ہم اس بھاگ دوڑ سے بہت خوش ہیں کہ آج ہماری سمجھ میں آیا کہ پنگاہ لینے کے معنی کیا ہوتے ہیں۔
واقعی آدمی کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جو رسوائی اور جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ ہمیں بکریوں کے پیچھے دوڑنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟ اسی طرح آ بیل مجھے مار بھی بڑا عجیب و غریب سا لگتا تھا۔ بھلا کوئی آدمی کیوں چاہے گا کہ بیل اُسے مارے پھر رفتہ رفتہ وقت نے سمجھا دیا کہ کسی جھگڑالو اور طاقت ور آدمی سے چھیڑچھاڑ کرنا آبیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ قارئین گرامی اس وقت ہمیں آبیل مجھے مار کی یاد اس لیے آرہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ٹائیگر فورس بنائی تو کچھ قوتوں نے عمران خان کو ہدایت جاری کی کہ حالیہ بجٹ میں تنخواہیں بڑھانے کے بجائے کم کردی جائیں۔ کیونکہ جس ملک کے نوجوان تنخواہ لیے بغیر کام پر رضا مند ہوں وہ کم تنخواہ پر کام کیوں نہیں کریں گے۔ گویا عمران خان کا ٹائیگر فورس بنانے کا عمل آبیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ بھٹو مرحوم نے بھی ایک فورس بنائی تھی مگر اس نے کیا کیا؟؟ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھی ایک فورس بنائی تھی جو کچھ اس فورس نے شیخ جی کے ساتھ کیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ بہتر ہوتا وزیر اعظم عمران خان کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیتے جو تاریخ کا حصہ بن جاتا اور عمران خان کو بھی تاریخ یاد رکھتی۔
ٹڈی دل کورونا وائرس سے پہلے ہی خو ف کی علامت بن چکا تھا اور تمام ادارے اس سے برسر پیکار تھے۔ سو ضرورت اس بات کی تھی کہ ٹڈی دل سے نبرد آزما ہونے کے لیے آزمودہ افراد کو میدان میں اُتارا جاتا ہمارے ہاں باقاعدہ ٹڈی دل سے لڑنے کے لیے ایک محکمہ ہوا کرتا تھا اور اس مصیبت کی گھڑی سے نمٹنے کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ ٹائیگر فورس کے بجائے ٹڈی دل کے سابق ملازمین سے رابطہ کیا جاتا اور ان کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا تو کاشت کاروں کو کم سے کم نقصان ہوتا اور ملک کی معیشت کو بھی کچھ نا کچھ سہارا مل جاتا مگر بد نصیبی یہی ہے کہ حکومت کو ملکی معیشت اور قوم کی خوشحالی سے کوئی سروکار ہی نہیں وہ صرف اپنے مخالفین تو چور، ڈاکو اور لٹیرا ثابت کرنے کے لیے نئے نئے شوشے چھوڑتی رہتی ہے۔ مان لیا! تحریک انصاف کے پیش رو حکمران چور تھے ڈاکو تھے لٹیرے تھے انہیں ملک کی پروا نہیں تھی وہ ملکی وسائل سے دلچسپی رکھتے تھے مگر اس کا کیا علاج کہ قوم یہ ماننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتی کہ بابائے قوم محمد علی جناح اور شہید ملت لیاقت علی خان نے بھی ملک کی خیر خواہی کے بجائے لوٹ مار کی ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے چیلو کا بیانیہ خود حکومت کے لیے عذاب بن چکا ہے۔ پاکستان تو کیا پاکستان کے باہر کے لوگ بھی یہ ماننے پر آمادہ نہیں کہ پاکستان کو 72برسوں تک لوٹا ہے اور ان سب کا ایک ہی قبیلے سے تعلق ہے جس کا پیشہ لوٹ مار اور ڈاکا زنی تھا۔ اس پس منظر میں سوچا جاسکتا ہے کہ قوم اور عدلیہ بابائے قوم اور شہید ملت لیاقت علی خان اور دیگر مشاہر کو چور، ڈاکو اور لٹیرا سمجھتی ہو تو وہ باوقار اور محترم کیسے ہوسکتی ہے اور عالمی برادری اس کو معزز اور معتبر کیسے کہہ سکتی ہے۔ کاش! از خود نوٹس کی ماہر عدلیہ اس بارے میں کوئی ایکشن لے اور قوم کو باور کرائے کہ چور چور کا شور مچانے والے خود چور ہیں۔