پہلی یا دوسری کا چاند

481

جناب مسعود ابدالی لکھتے ہیں:
’’مفتی منیب الرحمن فرماتے ہیں: چاند کے سائز سے تاریخ کا تعین فلکیات اور سائنس کی کون سی کتاب میں لکھا ہے، قمری ماہ کی انتیس تاریخ کو چاند غروب آفتاب کے بعد موجود ہو، لیکن نظر نہ آئے تو قمری مہینہ تیس کا قرار پائے گا اور اگلی شام تک اس چاند کی عمر چوبیس گھنٹے بڑھ جائے گی، لہٰذا وہ اُفق پر بلندی پر ہوگا، نسبتاً زیادہ روشن ہوگا اور زیادہ دیر تک اُفق پر رہے گا، لیکن وہ مذہب اور سائنس دونوں اعتبار سے پہلی تاریخ کا چاند ہوگا‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’فیصل سبزواری صاحب نے بھی بدھ کی شام کو چاند دیکھ کر اُسے دوسری تاریخ کا چاند قرار دیا ہے، حیرت ہے انہیں کروٹن کے پتے پر اپنے قائد کی شبیہ تو نظر آگئی، لیکن منگل کی شام چاند نظر نہیں آیا‘‘۔
کراچی یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر شاہد قریشی لکھتے ہیں:
’’بی بی سی کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ہمارے بڑے بڑے سیاست دانوں اور بہت سے دوسرے سیانوں نے شاید پہلی مرتبہ تیس کا چاند دیکھا ہے، جس کی وجہ سے ان کو شدید مغالطہ ہو رہا ہے کہ یہ ’’پہلی تاریخ‘‘ کا نہیں، بلکہ ’’دوسری تاریخ‘‘ کا چاند ہے۔ فواد چودھری صاحب تو اس لیے پیچ و خم کھا رہے ہیں کہ ان کا ’’بصری قمری کیلنڈر‘‘ ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گیا ہے۔
اسی لیے میں بار بار کہتا رہا ہوں کہ مستقل ’’بصری قمری کیلنڈر‘‘ بنانا ناممکن ہے، کیونکہ ہر ماہ ہلال دنیا کے بعض علاقوں میں ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ اس کا نظر آنا بہت مشکل ہوتا ہے، اگرچہ ناممکن نہیں ہوتا، اسے ریجن ’’بی‘‘ کہتے ہیں، جبکہ بعض دیگر علاقوں میں آسانی سے نظر آسکتا ہے، اسے ریجن ’’اے‘‘ کہتے ہیں اور بقیہ خطوں میں نظر آنا ناممکن ہوتا ہے، اسے ریجن ’’سی‘‘ کہتے ہیں، جبکہ سپارکو کے جن نیم حکیموں نے فواد چودھری صاحب کوکیلنڈر بنا کر دیا ہے، وہ ’’علمِ رویتِ ہلال‘‘ یعنی Science of Crescent Sighting سے قطعاً ناواقف ہیں۔ریجن بی کے علاقوں میں جب ہلال انتیس کی شام کو نظر نہیں آتا، تو اگلے دن یعنی تیس کی شام کوہلال موٹا بھی ہوتا ہے، زیادہ چمکدار بھی ہوتا ہے اور اکثر ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک دکھائی دیتا رہتا ہے۔ بی بی سی کی اس رپورٹ میں فواد چودھری صاحب سمیت جن جن لوگوں کو تیس کا چاند ’’دوسری‘‘ کا محسوس ہو رہا ہے، یہ صرف اور صرف ان تمام لوگوں کی کم علمی اور ناتجربہ کاری ہے۔ اسی لیے حدیث پاک میں نئے چاند کے لیے ’’رویت‘‘ کا اعتبار کیا گیا ہے، مطلع پر وقت اور سائز کا اعتبار نہیں کیا گیا، یہی دین کے علم کی عظمت ہے کہ آج بھی ماہرین اس سے متفق ہیں۔
راقم نے بیس برس فلکیات کے اسی میدان میں عملی کام کیا ہے، جب کبھی انتیس کی شام کو ہلال نظر نہ آتا تو ہم تیس کی شام کو غروب آفتاب سے پہلے چاند تلاش کرنا شروع کر دیتے تھے، اکثر ہمیں ہلال غروبِ آفتاب سے آدھ گھنٹے پہلے نظر آجاتا اور غروب آفتاب کے کم از کم ایک گھنٹے بعد تک دکھائی دیتا تھا اور یہ سب کام جامعہ کراچی کی فلکیاتی رصدگاہ میں موجود دوربین کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود فواد صاحب کے کیلنڈر میں جمعرات بیس اگست کو تیس ذوالحجہ لکھا ہے اور اس دن کا چاند سوا گھنٹے آسمان پر رہے گا، جبکہ فوادی کیلنڈر بنانے والوں نے اسے پہلی کا چاند مانا ہے، کسی نے سچ کہا ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
جب میں ان لوگوں کو نیم حکیم، کم علم یا ناتجربہ کار کہتا ہوں تو اس کی وجہ یہی ہے: یہ نہیں جانتے کہ ان کے اپنے کیلنڈر میں ذوالحجہ تیس دن کا ہے اور تیس کی شام کو جو چاند نظر آئے گا، وہ ذوالقعدہ کے چاند کی طرح ہی ہوگا اور ان کے نزدیک بھی وہ یکم محرم الحرام کا چاند ہوگا، تو سائز اور افق پر زیادہ دیر رہنے سے تاریخ کے تعین کا فلسفہ کہاں گیا۔ یہ کوئی انا کا مسئلہ نہیں ہے، سائنس اس بات سے قاصر ہے کہ ریجن بی کے چاند کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی پیش گوئی کرسکے، یہی وجہ ہے کہ رویت پر مبنی پہلے سے ایسا قطعی قمری کیلنڈر نہیں بنایا جاسکتا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریجن اے میں جہاں ہلال کے آسانی سے نظر آنے کے امکانات بتائے جاتے ہیں، وہاں سے بھی ہلال دکھائی نہیں دیتا، لہٰذا جس قسم کے ماڈلز کا سہارا لے کر سپارکو کے ناتجربہ کار لوگوں نے کیلنڈر اور ایپلیکیشن بنا کر دی ہے اور اسے ’’قطعی سائنس‘‘ مان کر اس پر ایمان لے آئے ہیں، وہ دراصل معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقے کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا ایک حربہ ہے، یہ شریعت اور سائنس دونوں کی رو سے درست نہیں ہے‘‘۔
فواد چودھری کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا دین اور عبادات سے کوئی تعلق نہیں ہے، بس انہوں نے اپنی نگرانی میں مرتّبہ کیلنڈر کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے اور جب رویت ہلال کا فیصلہ اس کے برعکس آتا ہے، تو وہ ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ رہے ہوتے ہیں، لیکن ان کی اس نفسیاتی بیماری کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے، ان کا تکبر وانانیت لاعلاج ہے، فارسی کا مقولہ ہے: ’’خودکردہ را علاجے نیست‘‘۔
حدیث پاک میں ہے: ’’ابو البختری بیان کرتے ہیں: ہم عمرے کے لیے گئے، جب ہم وادیِ نخلہ میں پہنچے تو ہم نے چاند دیکھنا شروع کیا، بعض لوگوں نے کہا: یہ تیسری تاریخ کا چاند لگتا ہے، بعض نے کہا: یہ دوسری تاریخ کا چاند لگتا ہے، راوی بیان کرتے ہیں: پھر ہماری ملاقات عبداللہ بن عباس سے ہوئی، ہم نے (قیاس کی بنیاد پر اختلاف کی) یہ صورتِ حال ان کے سامنے بیان کی، انہوں نے فرمایا: تم نے چاند کس رات کو دیکھا تھا، ہم نے کہا: فلاں رات کو، انہوں نے کہا: رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے دیکھنے کے لیے اسے بڑھا دیا، در حقیقت جس رات کو تم نے دیکھا ہے، یہ اسی رات کا چاند ہے، (مسلم)‘‘۔
اس مسئلے میں یہ حدیث شریعت کی اصل ہے کہ نئے چاند کا مدار رویت پر ہے، اس امر پر نہیں ہے کہ اس کا حجم چھوٹا ہے یا بڑایا اُفق پر اس کے نظر آنے کا دورانیہ کم ہے یا زیادہ۔ اس لیے کسی عالم یا تعلیم یافتہ شخص کا نیا چاند دیکھ کر یہ کہنا کہ یہ دو یا تین تاریخ کا لگتا ہے، یہ غیر شرعی اور غیر عالمانہ ہے۔ اسی طرح سائنسی حقیقت بھی یہی ہے، مثلاً: کسی قمری مہینے کے انتیس تاریخ گزرنے کے بعد شام کو نئے چاند کا غروبِ آفتاب کے فوراً بعد اُفق پر ظہور تو ہے، مگر اس کا درجہ چار یاپانچ ہے، اس کی عمر اٹھارہ گھنٹے ہے اور اُفق پراس کا ظہور پندرہ بیس منٹ ہے، تو اس صورت میں چاند اُفق پر موجود تو ہے، لیکن اس کی رویت کا قطعاً کوئی امکان نہیںہے، لہٰذا یہ قمری مہینہ تیس دن کا قرار پائے گا۔ اب اگلی شام کو اس چاند کی عمر بیالیس گھنٹے ہوجائے گی، اُفق پر اس کا درجہ بارہ یا اس سے اوپر ہوجائے گا اور اُفق پر اس کا استقرار بھی نسبتاً زیادہ وقت کے لیے ہوگا، مثلاً ایک گھنٹہ اور اس کا حجم بھی بڑا ہوگا، لیکن یہ قطعیّت کے ساتھ پہلی تاریخ کا چاند ہوگا۔ لہٰذا میری اہلِ علم اور اہلِ وطن سے اپیل ہے کہ توہّمات کے حصار سے نکلیں اور حقیقت پسند بنیں۔
فواد چودھری، اسٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے خود ساختہ ماہرینِ فلکیات اور دین کا تماشا لگانے والوں کے بارے میں سید المرسلینؐ نے پہلے ہی پیش گوئی فرمادی تھی: ’’شعبی بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: قربِ قیامت کی نشانی میں چاند کا بڑا نظرآنا ہے، کبھی ایسا ہوگا کہ نیا چاند کسی رات کو دیکھا جائے گا اور لوگ کہیں گے: یہ دوسری تاریخ کا چاند ہے، (مصنف ابن ابی شیبہ)‘‘۔
کیا کئی قمری مہینے مسلسل انتیس دن یا تیس دن کے ہوسکتے ہیں:
قرآن وسنت میں ایسی کوئی تصریح نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتنے قمری مہینے مسلسل تیس دن کے ہوسکتے ہیں اور کتنے مسلسل انتیس دن کے ہوسکتے ہیں۔ امام احمد رضا قادری نے علامہ قطب الدین شیرازی مصنف تحفہ شاہیہ وزیج الغ بیگی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’زیادہ سے زیادہ مسلسل چار قمری مہینے تیس دن کے ہوسکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ مسلسل تین قمری مہینے ممکنہ طور پر انتیس دن کے ہوسکتے ہیں، (فتاویٰ رضویہ)‘‘، امام احمد قسطلانی نے ارشادالساری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:
’’دویا تین قمری مہینے مسلسل انتیس دن کے ہوسکتے ہیں، چار ماہ انتیس دن کے نہیں ہو سکتے۔ ایک ماہرِ فلکیات نے لکھا ہے: ’’زیادہ سے زیادہ مسلسل پانچ قمری مہینے بھی تیس دن کے ہوسکتے ہیں‘‘، لیکن یہ سب امکانات کی بات ہے، ان پر کسی شرعی فیصلے کا مدار نہیں ہے۔
سائنسی اعتبار سے چاند کے بارے میں چند امور قطعی ہیں: سورج اور چاند کی حرکت، دونوں کے اوقاتِ طلوع وغروب، یہ ’’اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان‘‘ سے بھی ثابت ہے اور ماہرینِ فلکیات کا صدیوں کا مشاہدہ ہے اور انہی مشاہدات میں تطبیق کر کے کلیات ترتیب دیے جاتے ہیں، مسلمان ماہرینِ فلکیات اور ماہرینِ ریاضی وفزکس نے ان علوم میں کمال پیدا کر کے ’’اُسطرلاب‘‘ نامی آلہ ایجاد کیا تھا، جس سے سورج اور چاند کی چال، اُن کے طلوع وغروب کے اوقات اور نمازوںکے اوقات معلوم کیے جاتے تھے۔ قدیم وجدید فلکیات کی نصابی کتب میں ان امورکا تذکرہ ملتا ہے: نئے چاند کا بننا،چاند کا بڑھنا، پورے چاند کا بننا، چاند کا گھٹنا، چاند کا نظر نہ آنا، سورج گرہن، چاند گرہن اور طلوع وغروب وغیرہ۔ آج کل اُسطرلاب کی جگہ سوفٹ ویئرز اور موبائل اپلیکیشنز نے لے لی ہے، چاند کے حوالے سے مندرجہ بالا امور قطعی ہیں۔
لیکن نیا چاند کب قابلِ رویت ہوتا ہے، فلکیات کی تمام قدیم وجدید نصابی کتابوں میں یہ بحث نہیں ہے، جدید دور میں بھی ماہرینِ فلکیات چاند کی رویت کے بارے میں (خاص طور پر جب کہ امکانات ففٹی ففٹی ہوں) قطعی معلومات دینے سے قاصر ہیں۔ آج بھی اس کے بارے میں کم از کم بیس سے زائد معیارات مختلف ماہرین نے بیان کیے ہیں، کسی ایک معیار کو تمام ماہرین کے نزدیک مکمل طور پر متفق علیہ یا اجماعی قرار نہیں دیا جاسکتا، انہوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں آراء قائم کی ہیں۔ اسی لیے رویتِ بصری کی اہمیت کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماہرِ فلکیات ڈاکٹر شاہد قریشی نے ایک چینل پرکہا: ’’ہم سائنسی بنیادوں پر چاند کی رویت کا کوئی قطعی کیلنڈر نہیں بناسکتے، ہم امکانِ رویت کی نشاندہی کرسکتے ہیں، حتمی بات نہیں کرسکتے‘‘۔