ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

457

 پرانے وقتوں کی بات ہے ایک ایسا مجرم جس کی گردن اڑائے جانے کا حکم صادر ہو چکا تھا۔ جلاد ہاتھ میں تلوار لیے کھڑا تھا اور ہاتھ پاؤں بندھا مجرم میدان میں موجود تھا۔ قاضی نے روایت کے مطابق مجرم سے پوچھا کہ اس کی کوئی ایسی خواہش جس کو پورا کیا جاسکے بیان کرے۔ مجرم نے کہا کہ وہ مرنے سے قبل خوب پیٹ بھر کر پانی پینا چاہتا ہے۔ عدالت اس عجیب و غریب خواہش پر حیران ہوئی اور حکم ہوا کہ ایک بڑے کوزے میں مجرم کے لیے پانی لایا جائے۔ پانی آیا، مجرم کے ہاتھ کھولے گئے، مجرم نے دونوں ہاتھوں سے مٹی کا پانی بھرا کوزہ سنبھالا، لبوں تک لیجا کر ہاتھ روک لیے اور قاضی سے پوچھا کہ کیا جب تک میں یہ پانی (کوزے میں موجود پانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا) نہ پی لوں اس وقت تک مجھے قتل نہیں کیا جائے گا، قاضی نے کہا ایسا ہی ہے، مجرم نے پیالہ زمین پر پٹخ دیا، کوزے کے ٹکڑے ہوگئے اور پانی کچی مٹی میں جذب ہو گیا۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب نے کہا ہے کہ ’’بلدیاتی نمائندوں کے مالی، سیاسی اور انتظامی طور پر خود مختار ہونے تک کراچی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے‘‘۔ تفصیل اس خبر کی یوں ہے کہ ’’منگل کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں کراچی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 140 اے بلدیاتی نمائندوں کے مالی، سیاسی اور انتظامی طور پر خود مختاری کی بات کرتا ہے جب کہ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 140 اے پر اس کی روح کے مطابق مکمل عمل درآمد کی حامی ہے۔ عمران خان نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل آرٹیکل 140 اے کے تحت دائر پٹیشن کی جلد سماعت اور فیصلے کے لیے عدالت عظمیٰ سے فوری طور پر رجوع کریں‘‘۔
پی ٹی آئی کو حکومت بنائے ہوئے 25 ماہ سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور ان 25 ماہ کے دوران کراچی ایک نہیں درجنوں مسائل کا شکار ہوتا رہا ہے۔ سندھ حکومت کا سارے بلدیاتی وسائل پر قبضہ کر لینا اور اس کے حصے میں صرف بلدیاتی نمائندوں کی تنخواہیں وصول کرنے کے سوا کسی بھی قسم کا مالیاتی اختیار نہیں رہنے دینا جیسے اقدامات سے کراچی کا کوڑے کچروں کے ڈھیر میں تبدیل ہوجانا، سیوریج کے مسائل کھڑے ہونا، گلی کوچوں کا دھول مٹی سے اٹ جانا، نالے پورے کراچی کے کچروں سے پٹ جانا، آبادیوں کے اندر جانے والے سارے کچے پکے راستوں کا بڑے بڑے گڑھوں میں تبدیل ہوجانا جیسے بیسیوں ایسے مسائل جو با اختیار بلدیہ نہ ہونے کی وجہ سے عفریت کی صورت سر اٹھا کر کھڑے نظر آنے لگے ہیں، پورے 25 مہینوں تک وزیر اعظم کو یہ سب کچھ نظر نہ آنا ایک ایسا تعجب خیز واقعہ ہے جس پر یہی کہا جا سکتا کہ جس آئین کے آرٹیکل 140 اے کے حوالے سے وہ یہ بات کر رہے ہیں وہ پانی کا بھرا ہوا وہ کوزہ ہے جس کو موت کے سزا یافتہ مجرم نے کچی زمین پر پٹخ کر توڑ دیا تھا۔
آئین کا آرٹیکل 140 اے کوئی کل کی بات تو نہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت آج تو بنی نہیں تو پورے 25 ماہ تک کراچی کو مسائل میں گھرا ہوا دیکھتے ہوئے بھی آئین کا آرٹیکل 140 اے وزیر اعظم کو آخر کس لیے یاد نہیں آیا۔ آئین کے آرٹیکل 140 اے سے مسلسل چشم پوشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند دن پہلے صرف آدھے آدھے گھنٹے ہونے والی دو موسلا دھار بارشوں نے کراچی کے مکینوں کی زندگی کو موت کے بھیانک روپ میں بدل دیا، کئی پوش علاقوں سے لیکر متعدد غریب آبادیوں کو غرق کر دیا اور دو چار دنوں ہی میں کروڑوں روپوں کی املاک کو مٹی میں ملا کر رکھ دیا۔ نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نالے فواروں اور آبشاروں کی صورت میں ہر بلندی و پستی سے پھوٹ پڑے اور اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو تنکوں کی طرح بہا کر لے گئے۔
کراچی ایک ایسا بد قسمت شہر ہے جس پر اپنا حق تو سب ہی جتاتے ہیں لیکن اسے اون کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ کراچی پاکستان کا ایک دولت مند ترین باپ ہونے کے باوجود اتنا ناتواں بنا دیا گیا ہے کہ اس مٹی کے کہلانے والے ظالم بیٹے رات دن اسی باپ کے پیٹ پر لاتیں مارنے اور اس کی دولت کو لوٹنے گھسوٹنے میں لگے ہوئے نظر آتے ہیں اور باپ کے منہ میں ایک نوالہ بھی دینے کے لیے تیار نہیں۔ پورے 25 ماہ گزرنے کے بعد وزیر اعظم کو خوامخواہ آرٹیکل 140 اے یاد نہیں آ گیا ہوگا۔ موجودہ مقامی حکومت اپنے دن پورے کرنے والی ہے اور اگر اس مرتبہ بھی عدالت عظمیٰ الیکشن کا حکم صادر کردے تو پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ حکومت اور کراچی کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کی طرح کراچی کی مقامی حکومت بھی اس کے حوالے کی جاسکتی ہے۔ بااختیار مقامی حکومت تو موجودہ مقامی حکومت کو بھی بنایا جا سکتا تھا لیکن وسائل ان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہاتھ سے نکل سکتے تھے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اس ہمدردی کے پیچھے بھی کوئی گہرا راز ہے ورنہ کراچی اور اہل کراچی وفاق کے اتنے لاڈلے کب رہے ہیں۔ شاید اسی موقع و محل کے لیے چچا غالب نے کچھ یوں کہا تھا کہ
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں