جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے مملکت خداداد پاکستان کو ہمیشہ کسی نہ کسی بحران اور مشکلات میں گھرا ہی دیکھا ہے۔ ایوب خان کا مارشل لا، یحییٰ خان کی رنگین مزاجی، جنرل نیازی کی بزدلانہ سالاری اور اس کے بعد پاکستان کا دو لخت ہو جانا۔ بھٹو کی سول آمریت اور اس کے ردعمل کے طور پر دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد تحریک نظام مصطفی ،بھٹو کی پھانسی وغیرہ۔ ہماری شہہ رگ کشمیر کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ یادوں کے دریچے وا کریں اور اس کے بعد سے لیکر آج تک کے تمام بحرانوں کا مکمل جائزہ لیتے جائیں آپ دیکھیں گے ہمارا یہ ملک کن کن مشکلات سے گزر کر آج بھی اپنے پائوں پر سلامت کھڑا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری یہ مملکت حقیقتاً مملکت خداداد ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس پر خاص نظر کرم ہے اور یہ آزادی کے اس اساسی نعرے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور ہمارے اجداد کی مالی اور جانی قربانیوں کی وجہ سے ہے ہم نے سب کچھ دیکھا اور سب سہہ گئے۔
شاباش ہے ہماری قوم کو اتنے بحرانوں کے بعد بھی ان کے جذبے اور اعصاب دونوں سلامت رہے لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ اس قوم کے جذبات اور احساسات دونوں مضمحل قوت برداشت جواب دیتی چلی جا رہی ہے حتیٰ کہ ان کی حب الوطنی میں دراڑیں نظر آنے لگی ہیں۔ سب سے پہلے تو اس کے ذمے دار ہم یعنی قوم خود ہے جو ہر بار جھوٹے وعدوں اور نعروں کے فریب میں آکر اپنے سروں پر ان خائین اور خاندانی چور لٹیروں کو اپنا مسیحا بنا لیتی ہے جو نسل درنسل ہمارے مربی اور آقا بنے ہوئے ہیں سیاست کے یہ فرعون لاڑکانہ اور لاہور میں بھی ہیں سیالکوٹ اور جہلم میں بھی، ہالا اور ملتان، قصور اور سکھر، فیصل آباد اور پشاور میں بھی ہیں، کہیں یہ نواب اور نواب زادے، کہیں لغاری تو کہیں مزاری، دریشک اور کھوسے، قریشی اور گیلانی، گردیزی یا پھر گورمانی تو کہیں کے زردار اور چٹھے ہیں۔ کہیں یہ بھٹو اور مخدوم تو کہیں یہ شریف اور ترین کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں پہلی بار روٹی کپڑا اور مکان نے عوام کو دھوکا دیا اور اب تبدیلی نے ان کی ہیت اور حلیہ ہی تبدیل کردیا ملک میں آئے پے در پے بحرانوں نے ان کے اوسان خطا اور ان کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے ہر دن کا سورج ان کے لیے نئی پریشانیاں لیکر طلوع ہوتا ہے، ماضی کے بحرانوں کی خصوصیت یہ تھی کہ متعلقہ بحران سے صرف کوئی ایک طبقہ یا چند طبقات متاثر ہوتے تھے مگر آج کے بحرانوں نے تمام طبقات امیر وغریب، آجر اور اجیر، تاجر و مزدور، ملا اور مسیحا، کسان و دہقان، میڈیا اور اساتذہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے گزشتہ ادوار میں کوئی ایک خبر ہفتوں میڈیا اور اخبارات کی زینت ہوا کرتی تھی مگر اب روز اتنے موضوعات ہیں کہ انسان یہ سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ اپنا بیان کس پر دے یا قلم کس پر اٹھائے کے اچانک ایک نئی خبر سامنے آجاتی ہے پھر بیان بدلنا اور تحریر کو موخر کرنا پڑ جاتا ہے۔ آٹے، چینی کی بات مکمل نہیں ہوتی کہ گیس، بجلی اور پٹرول کا بحران ایک نئی بحث کا آغاز کردیتا ہے گزشتہ ہفتے دو بہت اہم موضوعات سامنے آئے جن میں وزراء اور مشیران کی دہری شہریت اور اعلیٰ عدلیہ کی نیب کے خلاف ایک لمبی چارج شیٹ جس پر کالم اور بیانات شروع بھی نہ ہو پائے تھے کہ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی اپیل پر بات چیت شروع ہوگئی اور فوراً ہی بعد پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والا تحفظ مذہب بل نے اس کی جگہ لے لی، لگتا ایسا ہی ہے کہ پے درپے خبریں کسی خاص مقصد یعنی حکومتی کارکردگی کا دو سالہ تجزیہ بڑھتی مہنگائی، بیڈ گورنس، پاکستانی روپوں کی قدر میں کمی، منفی گروتھ، بیروزگاری، ناکام داخلہ اور خارجہ پالیسی، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر۔ ملا نصیر اور شیخ چلی جیسے وعدوں سے عوام کی توجہ ہٹانے اور ان کے مرکز نگاہ کو کسی ایک نقطے پر مرکوز ہونے سے روکنے کے لیے ہیں۔ تمام موضوعات میں سے پہلے دہری شہریت اور نیب کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کی چارج
شیٹ پر راقم کو اپنی تحریر اس لیے پس پشت ڈالنا پڑی کہ ایک پرانا محاورہ روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا کی طرف موڑ دیا اس بار روم نہیں جل رہا تھا بلکہ ہمارا شہر پاکستان کا معاشی حب لکھوکھا انسانوں کے روزگار کا مرکز ہمارا منی پاکستان ڈوب رہا تھا اور کچھ لوگ کیک کاٹنے میں مصروف تھے تو کچھ آرمی چیف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے بعد متنازع نیب چیئرمین کی ملازمت میں توسیع اور حزب اختلاف پر کیے گئے ظلم کے بعد اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتے دیکھ کر نیب آرڈیننس میں ترامیم کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور ان سب کا لیڈر بائیس سالہ جدوجہد کا راگ نئے پاکستان کا دعویدار کنٹینر خان نیازی حقیقتاً چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ کراچی میں بارش کی تباہی کے بعد پھر وہی راگ درباری اور ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست ہے کوئی اس بات کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں کہ مون سون الرٹ جاری ہونے کے بعد بھی شہر قائد کو ڈوبنے کے لیے کیوں چھوڑا گیا؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟ کیا وفاقی حکومت سندھ حکومت پر ذمے داری ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہے اور کیا ایم کیو ایم، پی پی پی اور اب پی ٹی آئی ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ان غریبوں کی خون پسینہ سے کمائی اور بنائی املاک کے نقصانات کی تلافی کر سکتے ہیں؟ سرجانی ٹائون، ڈیفنس، گلستان جوہر، عائشہ منزل کے قرب و جوار کے علاقے اور سب سے بڑھ کر اورنگی ٹاؤن ڈوب رہا ہے گھروں اور مسجد میں نالے اور گٹر کا پانی داخل ہو چکا ہے سندھ گورنمنٹ سب اچھا کے راگ کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی شہری حکومت اور اس کے میئر کو اس تباہی کا ذمے دار قرار دے رہی ہے، کئی کئی سال سے مسند اقتدار پر براجمان اور اس کے ساتھ چمٹی یہ دونوں حکومتیں بے شک اس کی ذمے دار ہیں تاہم پی ٹی آئی کے کراچی سے منتخب 14 ایم این اے اور 27 ایم پی اے کس طرح اپنے آپ کو اس سے علٰیحدہ رکھ سکتے ہیں جو آر ٹی ایس سسٹم فیل کرائے جانے کے بعد اقتدار تک پہنچے اور جو دو سال سے اسی اقتدار کی بھینس کا دودھ پی رہے ہیں کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے سندھ گورنمنٹ کا کام ہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی اس بار وزیر اعظم کراچی سے کا نعرہ لگا کر اپنے وعدے سے انحراف کرنے والے پی ٹی آئی کے لوگوں سے کراچی کے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وزیر اعظم کراچی ہی کے ہیں گو کہ انہوں نے یہ نشست چھوڑ دی ہے اور ان کی بد قسمتی ہے کہ صدر بھی اس بار کراچی کا ہے آج اہلِ کراچی صدر عارف علوی کو ڈھونڈ رہے ہیں جو محض ووٹ لینے کے خاطر برسات میں لائف جیکٹ پہنے کراچی کی سڑکوں پر بچوں کی کشتی پر سوار کراچی والوں کی ہمدردیاں سمیٹنے آئے تھے پر کیا کہا جائے اور کیسے کوسا جائے اپنی عقل کو جس نے انہی بہروپیوں میں اپنا مستقبل تلاش کیا جن میں ایک وفاقی وزیر فیصل واوڈا جو پولیس کے ساتھ بلٹ پروف جیکٹ پہنے چائنیز قونصلیٹ کے آپریشن میں شریک تھا اور ایک اور راک اسٹار گورنر جس کا تعلق بھی
کراچی سے ہے مسند اقتدار پر براجمان ہے ایک اور وفاقی وزیر علی زیدی کہتے ہیں کے ان کہ کراچی کے عوام سے وعدہ ہے کہ وہ اب چپ نہیں بیٹھیں گے۔ کراچی کے لیے وزیر اعظم سے بات کریں گے سوال یہ ہے کے دو سال سے چپ کیوں تھے۔ایک خاتون ایم پی اے فرماتی ہیں سندھ حکومت کی غفلت نے سندھ کو تباہ کیا۔ ان تمام لولی پاپ کے بعد اہل کراچی یہ سوچنے پر خود کو مجبور پاتے اور کف افسوس ملتے نظر آتے ہیں کہ ان کے مسترد کردہ صادق اور امین کراچی کے رہائشی ایک بار نہیں کئی بار کراچی کو امن و محبت کا گہوارہ بنا چکے اور اپنی امانت اور دیانت دار خدمات اور خلوص کے خون پسینوں سے اس شہر کو چمکتا دمکتا مہکتا کراچی بنا کر پیش کر چکے ہیں یقینا نہ ہم بھولے ہیں اور نہ ساکنان کراچی بھول پائیں گے ایک تھا لیاری کا عبد الستار افغانی اور دوسرا تھا ضعیف العمر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اللہ ان کو غریق رحمت کرے جنہوں نے الزامات کے بجائے خدمات کو اپنی پہچان بنایا اور نیا ایک نعرہ متعارف کرایا ’’خدمت دیانت کے ساتھ‘‘ اہل کراچی اس چمن میں اب بھی بے شمار مہکتے پھول موجود ہیں انہیں اپنی زینت اور گلے کا ہار بنائو دھوکا نہ کھائو۔