’’رافیل طیاروں‘‘ کی آمد سے قبل ہی طیاروں کی خریداری کے معاملے پر بھارتی سیاست میں ہلچل پیدا ہو گئی اور نریندر مودی کرپشن اسکینڈل میں پھنس گئے، وہ ملک کو جنگ کی آگ میں دھکیل کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے قبل اس داستان ِ کرپشن کو آگے بڑھایا جائے اس سلسلے میں یہ بتانا ضروری ہے، 18اکتوبر 2019بھارتی میڈیا کے مطابق فرانسیسی شہر بورڈوکس کی ائر بیس پر پہلا رافیل طیارہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے حوالے کیا گیا۔ لیکن تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ بھارت کے لیے یہ طیارے جولائی 2020ء میں فرانس سے روانہ ہوئے ہیں۔ طیارے 7ہزار کلو ناٹ کا فاصلہ طے کر کے توقع ہے اگست 2020ء کے دوسرے ہفتے میں بھارت پہنچیں گے۔ بھارت پہنچنے والے طیاروں کے بارے میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ان طیاروں کی خریداری دفاعی مقاصد کا حصہ ہے، کسی کے خلاف جارحیت نہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے 18اکتوبر 2019ء کو اعلان کیا تھا کہ فروری 2021ء سے 18 اپریل یا مئی 2022 تک پورے 36 رافیل جنگی طیارے بھارت کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ لیکن امریکا کے دباؤ کے تحت 5رافیل طیارے فوری طور پر بھارت بھیج دیے گئے تاکہ یہ طیارے لداخ، گلوان ویلی، اور (y) ایریا کا دفاع کرنے کے لیے پہنچیں، جہاں سے چینی فوج کو مار بھگایا جائے۔ اُدھر پاکستان پر بھی یہ کہہ کر دباؤ بڑھایا جائے گا کہ بلند وبالا پہاڑوں پر موجود ’’ایل او سی‘‘ پر اب ’’رافیل طیارے‘‘ کی وجہ سے بھارت کو برتری حاصل ہے لیکن بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ’’رافیل طیارے‘‘ چینی طیاروں F21s کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور ان کے لیے دوسرے طیارے روس سے درآمد کرنے کی ضرورت ہے لیکن مودی اب ہاتھ صاف کرنے اور مال بنانے کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔
’’یاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فروری 2020ء میں پاک بھارت فضائی جھڑپ میں پاکستان کی برتری کا بلواسطہ اعتراف کیا تھا، ایک تقریب سے خطاب میں ان کاکہنا تھا کہ ’’رافیل کی کمی پورے ہندوستان نے محسوس کی ہے۔ اگر ہمارے پاس رافیل طیارہ ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی‘‘۔ بھارت کی سیاست میں بھی رافیل کا چرچا رہا ہے اور نریندر مودی پر کرپشن کے الزامات بھی سامنے آئے تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فرانس سے 36 رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے تاہم بھارت کی اپوزیشن جماعتیں اس ڈیل میں بدعنوانی کا الزام عائد کرتی ہیں۔ بھارت نے فرانس سے 2016 میں 59 ہزار کروڑ روپے کے 36 رافیل طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا۔
بھارت میں اس معاملے پر اس وقت دھماکا ہوا جب ستمبر 2018ء میں فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند نے انکشاف کیا کہ بھارت نے 11 کھرب روپے مالیت کے 36 رافیل لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے بزنس مین انیل امبانی کی دیوالیہ کمپنی کو پارٹنر بنانے کی تجویز دی تھی۔ بزنس مین انیل امبانی کی دیوالیہ کمپنی کے تمام اثاثے ایک چینی بینک نے خرید لیے تھے، سابق فرانسیسی صدر کے انکشافات کے بعد بھارتی سیاست میں ہلچل مچ گئی اور اپوزیشن جماعت کانگریس کے صدر راہول گاندھی بھی مودی سرکار پر برس پڑے تھے۔ راہول گاندھی نے کہا تھا کہ انیل امبانی کی کمپنی 45 ہزار کروڑ روپے کے قرض میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس کی مدد کے لیے ہی نریندر مودی نے رافیل طیاروں کے معاہدے کا سہارا لیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی بزنس مین انیل امبانی ہیں جن کو مودی نے سستے ’’4G-5G‘‘ فون بنانے کا کام دیا ہے۔ بھارتی حکومت سے اس سلسلے میں جب سوال ہوا تو حکومت نے جواب دیا کہ رافیل طیاروں کے معاہدے کی خفیہ دستاویزات چوری ہوگئیں۔ اس وقت اپوزیشن نے کہا کہ بھارتی عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ وطن کا چوکیدار چور ہے اور سابق فرانسیسی صدر نے بھی ہمارے وزیراعظم کو چور کہا ہے۔ راہول گاندھی نے مزید کہا تھا کہ مودی کو فرانسیسی صدر کے بیان کی تصدیق یا تردید کرنی چاہیے لیکن ہمیں مکمل یقین ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کرپٹ ہیں۔
اگر ’’رافیل طیاروں کے معاہدے کی خفیہ دستاویزات چوری ہوگئیں‘‘۔ تو یہ بھی بتایاجائے کہ 2020ء میں یہ ڈیل کہاں سے سامنے آ گئی۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں جب بھارتی سرحدوں پر 50ہزار چینی افواج موجود ہیں چوری شدہ دستاویزات دوبارہ کیسے میدان میں اُتر آئیں۔ مودی کے دوست بزنس مین انیل امبانی بھارت چین جنگ کو جس میں بھارت کے 20 سے 25 سپاہی اور افسران ہلاک ہو چکے ہیں اپنی کرپشن چھپانے اور مودوی کو بچانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سلسلے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ 24جون 2020ء کو رشین فیڈریشن کی سالانہ پریڈ میں شرکت کے لیے بھی گئے اور ان سے چینی F21s طیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے طیارے کی خریداری کی بات کی لیکن ولادیمیر پیوٹن نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو بتایا کہ وہ اس طیارے کا سودے کرنے کو تیار ہیں لیکن طیارے ’’چین اور پاکستان‘‘ کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔ جس کے بعد بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے یہ کہہ کر ڈیل کو ڈھیل میں تبدیل کر دیا کہ بھارت کو ابھی ان کی ضرورت نہیں ہے اور پھر امریکا نے فرانس پر دباؤ بڑھادیا اور اب توقع ہے کہ بھارت کو یہ طیارے اگست 2020ء تک مل جائیں گے۔ ’’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘ کے مصداق تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ ’’لداخ سے دُوکلام (DOKLAM)‘‘ تک چین جن علاقوں میں موجود ہے وہاں سے وہ واپس نہیں جائے گا۔ بھارتی علاقے دُوکلام میں چین 2017ء میں اپنی جنگی مشقیں کرتا رہا ہے اور یہ سب مودی کی اجازت سے ہوا ہے۔
چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت نے پڑوسیوں سے تعلقات پر بھی خصوصی توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ بھارت نے بنگلادیش کو خود اور امریکا سے دھونس، دھمکی دلوانے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے فوری طور پر بنگلادیش کو 10ریلوے انجن فراہم کر ے گا۔ یہ بات بنگلادیش میں موجود بھارتی ہائی کمشنر نے ’’ڈیلی ڈھاکا‘‘ کو بتایا کہ 2019ء میں بنگلادیشی وزیراعظم حسینہ واجدکی انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارت کی تمام سرمایہ کاری بنگلادیش میں منجمد ہے اس کے برعکس بنگلادیش میں چین کی سرمایہ کاری کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنایا جارہا ہے۔ 2017ء میں یہ طے ہو تھا کہ بھارت بنگلادیش کے مختلف شعبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جبکہ 5 ارب ڈالر قرضوں کی صورت میں دیے جائیں گے۔ ان میں 5 کروڑ ڈالر کا فوجی قرضہ بھی شامل ہے۔ یہ بات بنگلادیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے 12اپریل 2017 کو ڈھاکا میں بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے از خود دورہ بھارت کے دوران وہاں کی حکومت اور کمپنیوں نے بنگلادیش میں سرمایہ کاری کرنے اور قرضے دینے کی پیشکش کی۔ یہ قرضے اور سرمایہ کاری بنگلادیش میں مختلف شعبوں کی بہتری اور ترقی کے لیے کی جائیں گی۔
2017 میں یہ طے ہوا تھا کہ بھارت بنگلادیشی فوجیوں کو تربیت فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ بنگلادیش 5 کروڑ ڈالر کے فوجی قرضے سے دفاعی سازوسامان بھی خرید سکے گا۔ علاوہ ازیں بھارت‘ جیسور میں 1320 میگاواٹ بجلی گھر بنانے کے لیے بھی قرضے دے گا۔ لیکن بھارت کے یہ سارے وعدے اب بنگلادیش کو یاد نہیں اور بھارت کو یہ سب وعدے 2017ء سے مئی 2020ء تک یاد نہیں تھے۔ اب بھارت کو یاد آگیا ہے کہ اسے بنگلادیش کو ریل کے 10انجن بھی دینا ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا نے بھی بنگلادیش کو ٹیسٹ کرنے کے لیے 1975ء میں شیخ مجیب الرحمن کے قتل میں ملوث رشید چودھری کو بنگلادیش واپس بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن رشید چودھری کے وکیل نے کہا ہے کہ وہ ایسا نہیں ہونے دے گا اور امریکا کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کسی کو سیاسی پناہ دینے کے بعد اس کو مرنے کے لیے واپس موت کے پھندے تک پہنچا دیا جائے۔ بنگلادیش میں موجود امریکی سفیر بھی وزیر اعظم بنگلادیش سے جلد ملاقات کرنے والے ہیں۔ جس میں اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ چین سے کیا طے ہوا اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے کیا کیا باتیں ہوئیں اس سلسلے میں بس اتنا کہنا ہے کہ اب بھارت کی سلامتی چوروں کے ہاتھ میں ہے اور ایسے ملک میں ترقی اور سلامتی دونوں ہی خطرے میں ہے۔