عید الاضحی

312

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

عیدالاضحی ہر سال قمری مہینے ذی الحجہ کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اسے مسلمانوں میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ایک طرف جہاں سماجی پہلو سے یہ خوشی و مسرت، باہمی ربط اور ہمدردی کا موقع فراہم کرتی ہے وہیں دوسری طرف اس کی مذہبی حیثیت بھی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اور اقوام میں خوشی منانے کے لیے مختلف رسوم اور تہوار ہیں، لیکن اسلام کا یہ ’ تہوار‘ ان سب سے منفرد اور ممتاز ہے۔
انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ دو دن جشن مناتے ہیں، جن میں یہ خوب کھیل کود کرتے ہیں۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے جواب دیا: ’’زمانۂ قدیم سے یہ دو دن ہمارے تہوار ہیں، جن میں ہم کھیل تماشا کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے تمھیں ان سے اچھے دو دن عطا فرمائے ہیں: اضحی کا دن (عید الاضحی) اور فِطرکا دن (عید الفطر)‘‘۔ (ابوداؤد)
حج و قربانی سیدنا ابراہیمؑ کی یادگار
حج کے تمام مناسک و شعائر دراصل ابراہیم علیہ اسلام کی یادگار کے طور پر مشروع کیے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے حج کے موقع پر ارشاد فرمایا:
’’حج کے تمام مناسک ادا کرو۔ یہ تمھیں تمھارے باپ ابراہیمؑ سے ورثے میں ملے ہیں‘‘۔ (ابودادؤد)
سیدنا ابراہیمؑ کی یادگار تلبیہ (لبیک کہنا)، طوافِ کعبہ، صفا ومروہ کے درمیان سعی، وقوفِ عرفہ، قربانی، رمی جمرات اور دیگر مناسکِ حج میں کارفرما ہے۔ سب سے پہلے ابراہیمؑ نے ان پر عمل کیا۔ ان کے بعد ان کی ذریت اور ان پر ایمان لانے والیان پر عمل کرتے رہے۔ آخرمیں خاتم النبیین سیدنا محمدؐ نے ان پر عمل کیا اور اپنی امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم دیا۔
اللہ کی کبریائی کا اعلان
حج کے موقع پر انجام دیا جانے والا ایک عمل ’تلبیہ‘ ہے۔ حاجی احرام باندھتے ہی تلبیہ شروع کرتا ہے اور سفر کے دوران میں مسلسل اسے دہراتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ جمرۂ عقبہ پر کنکریاں مار لے۔ عمرہ کرنے والے کے لیے بھی تلبیہ مشروع ہے، یہاں تک کہ وہ حجر اسود کا ’استلام‘ کرلے۔ حدیث میں تلبیہ کے الفاظ مروی ہیں۔
ترجمہ: ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ حمد و ثنا تیرے ہی لیے ہیں، نعمت بھی تیری ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔
جو لوگ حج پر نہ جاسکیں ان کے لیے تکبیر تشریق کی مشروعیت ہے۔ 9 ذی الحجہ کی فجر سے 13 ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نمازکے بعد تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے عیدگاہ جاتے وقت بھی تکبیر کہنے کاحکم دیا گیا ہے۔
تلبیہ ہو یا تکبیر، یہ دراصل اللہ کی کبریائی کا اعلان ہے۔ اس طرح بندۂ مومن کو یہ تعلیم دینا مقصود ہے کہ وہ ہر حال میں نہ صرف اپنے دل میں اللہ کی عظمت کا احساس پیدا کرے، بلکہ زبان سے بھی اس کا اظہار کرے۔
اجتماعیت کا مظاہرہ
حج کا موقع ہو یا عید الاضحی کی نماز کا، ان سے اہل ایمان کی اجتماعیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ حج میں پوری دنیا کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن اس موقع پرسارے امتیاز مٹ جاتے ہیں۔ سب دوش بدوش ہوکر تمام مناسک ادا کرتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر بھی مسلمان بڑی تعداد میں عیدگاہ یا بڑی مساجد میں اکٹھے ہوکر نماز ادا کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیتے تھے، چاہے وہ بچیاں ہوں یا دوشیزہ یا بوڑھی، پاکی کی حالت میں ہوں یا ناپاکی کی حالت میں۔ آپؐ فرماتے تھے کہ حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہیں گی، لیکن وہ خیر کی مجالس اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک رہیں گی۔ ( بخاری، مسلم) اس حکم کا مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کی شوکت کا اظہار ہو، وہ ایک دوسرے سے ملیں جلیں، ان کے احوال سے واقف ہوں، ان سے ہمدردی کا اظہار کریں اور ان کی غم خواری کریں۔
قربانی
عید الاضحی کے موقع پر سب سے اہم عمل ’ قربانی‘ ہے۔ یہ اصلاً اس قربانی کی یادگار ہے جو سیدنا ابراہیمؑ نے اشارۂ الٰہی پاکر اپنے بیٹے اسماعیل کی کرنی چاہی تھی، بعد میں اللہ کے اِذن سے انھوں نے سیدنا اسماعیلؑ کی جگہ ایک مینڈھے کی قربانی کی تھی۔ اس وقت سے یہ سنت جاری ہوگئی اور اللہ کی خوشنودی کے لیے جانور قربان کرنا ایک مشروع اور مسنون عمل قرار پایا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘۔ (الکوثر)
احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے قربانی کی ہے۔ (بخاری) چنانچہ یہ عمل سنت اور بعض علما کے نزدیک واجب قرار پایا اور مسلمان برابر اس پر عمل کررہے ہیں۔
ایک مسلمان عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرکے درحقیقت اس عہد کا اظہار کرتا ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرے گا، اس کی مرضیات پر چلے گا اور وقت ضرورت کسی طرح کی قربانی سے گریز نہیں کرے گا۔ یہی قربانی کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (الحج: 37)
احکام الٰہی پر من و عن عمل مطلوب ہے
موجودہ دور میں بعض حضرات حج اور قربانی پر اعتراضات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حج میں لاکھوں مسلمان دنیا کے کونے کونے سے مکہ مکرمہ میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ سفر کی صعوبتوں کے علاوہ ایک جگہ پر بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے اکٹھے ہونے سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں، حادثات ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ قربانی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اس عمل سے بے شمار جانوروں کا ضیاع ہوتا ہے اور اس سے سنگ دلی اور بے رحمی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اگر حج اور قربانی میں صرف ہونے والے کروڑوں اربوں روپے انفرادی یا اجتماعی طور پر رفاہی کاموں میں خرچ کیے جائیں تو اس سے بہت سے فائدے حاصل ہوں گے۔
سوچنے کا یہ انداز صحیح نہیں ہے۔ گویا انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انجام دیے جانے والے تمام کام حج اور قربانی کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ ان پر پابندی عائد کرنے یا محدود کرنے سے وہ کام تیزی سے ہونے لگیں گے۔
دین کے تمام احکام پر من وعن عمل مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حج اور قربانی کا حکم دیا ہے اور خدمت خلق کی بھی تاکید کی ہے۔ اہل ایمان سے دونوں اعمال مطلوب ہیں۔ کسی عمل کو ترک کیا جاسکتا ہے نہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔ ہاں بار بار حج یا عمرہ کرنے اور قربانی میں دکھاوے کے لیے مہنگے جانور خریدنے کو فقہا نے ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔