افکارسید ابولا علی مودودیؒ

145

قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیرِ حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں، اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے، اس کے حقوقِ مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملًا بھی اعتراف کریں، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ اللھم منک ولک، ’’خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔
اس مقام پر یہ جان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا جوحکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے، اور صرف مکّے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے، جہاں بھی وہ ہوں، تاکہ وہ تسخیرِ حیوانات کی نعمت پر شکریہ اور تکبیر کا فرض بھی اداکریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہو جائیں۔ حج کی سعادت میسر نہ آئی نہ سہی، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوارِ بیت اللہ میں کریں۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبیؐ خود مدینہ طیّبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپؐ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ مْسند احمد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
’’جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘۔
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف۔
ترمذی میں ابنِ عمرؓ کی روایت ہے : نبیؐ مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔
بخاری میں انسؓ کی روایت ہے کہ نبیؐ نے بقر عید کے روز فرمایا:’’جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کر نی چاہیے، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پو ری ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا‘‘۔
اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکّے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں۔
مسلم میں جابرؓ بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ نبیؐ نے مدینے میں بقر عید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کر چکے ہیں، اپنی اپنی قربانیاں کر لیں۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کر لی ہے وہ پھر اعادہ کریں۔پس یہ بات شک و شبہے سے بالا تر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں، یہ نبیؐ ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں ہے کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت۔ ابراہیم نخعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام محمد اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی، اس کو واجب مانتے ہیں۔ مگر امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سنتِ مسلمین ہے، اور سْفیان ثَوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ تاہم علمائے امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نئی اْپچ صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سْوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔
تفہیم القرآن، سورۃ الحج حاشیہ نمبر47)