میدان عرفات کا پیغام

206

ایمان مغازی الشرقاوی

ارشادِ الٰہی ہے: ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن 79)
رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’اے لوگو، اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو‘‘۔ (مسلم) جب ایک مسلمان حج کے سلسلے میں اس حکمِ ربانی اور ارشاد نبویؐ کی تعمیل کا تہیہ کرلیتا ہے تو وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے کہ کاش دن اور رات سمٹ جائیں تاکہ وہ حرم میں جاپہنچے اور ان سعادت مندوں میں شامل ہوجائے جنھیں اللہ رحمن نظررحمت سے دیکھتا ہے اور انھیں آتشِ جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔
میدانِ عرفات اور میدانِ حشر:
زائر حرم احرام باندھتا ہے تو اسے موت یاد آتی ہے۔ وہ احرام کی سفید چادروں کو کفن گمان کرتا ہے۔ عرفات پہنچ کر گویا وہ اپنے تئیں میدانِ حشر میں موجود پاتا ہے۔ یہ احساس اس پر غالب رہتا ہے کہ تھوڑی ہی دیر کے بعد، اْس سے اْس کے اعمال کی بابت بازپْرس ہوگی۔ یہ خیال آتے ہی اس کے وجود میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے اور اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، چنانچہ وہ دل کی گہرائیوں سے پکار اْٹھتا ہے: ’’اے میرے پروردگار، میں تیرے حضور توبہ کرتے ہوئے حاضر ہوں۔ تیرے عفو و درگزر کی چوکھٹ پر کھڑا ہوں اور تیری رضا کا طلب گار ہوں، لبیک اللھم لبیک۔
موقفِ عرفہ یومِ حشر یاد دلاتا ہے۔ جب اللہ اگلوں پچھلوں کو یک جا کرے گا۔ اس دن جن و انس، فرشتے، انسان اور اس کے اعمال، انبیا اور اْن کی اْمتیں، نیکوکاروں کا ثواب اور بدکاروں کی سزا سب یک جا ہوں گے۔اس دن کی ہولناکی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ اس روز ہرکسی کو حاضر ہونا ہوگا، نہ کوئی پیچھے رہ سکے گا اور نہ کوئی آنے سے انکار کرپائے گا۔ اس دن کسی کے لیے اختیار و ارادہ نہ ہوگا، ہر کوئی نفسی نفسی پکار رہا ہوگا اور نجات کا متمنی ہوگا۔
عرفات میں دنیا کے ہرعلاقے کے مسلمان آتے ہیں، جب کہ روزِ حشر آدمؑ سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کے انسان اکٹھے ہوں گے۔ میدانِ عرفات میں جہنم کی آگ سے آزادی کے لیے دعائیں ہوتی ہیں تو حاجیوں کو مغفرت سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے ہی میدانِ حشر میں گنہگار اہلِ ایمان کو نبی کریمؐ کی شفاعت سے جہنم کی آگ سے نجات ملے گی۔ ’’اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔ (الشعراء88-89 )
قلبِ سلیم وہ ہے جو شرک و گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو، جو بدعت سے محفوظ اور سنت پر مطمئن ہو، جو لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو۔ ایسے لوگ روزِ قیامت خوف سے امن میں ہوں گے۔ جیساکہ ارشاد نبوی? ہے: ’’لا الٰہ الا اللہ والوں پر نہ ان کی قبروں میں کوئی وحشت ہوگی، نہ حشرمیں۔ مَیں گویا لا الٰہ الا اللہ والوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے اس نے ہم سے پریشانی دْور کردی‘‘۔ (طبرانی)
میدانِ عرفات اور میدانِ حشر میں شیطان کی حالتِ زار:
نبی اکرمؐ فرماتے ہیں: ’’اللہ رحیم ہے، سخی و کریم ہے، اسے اپنے بندے سے حیا آتی ہے کہ وہ اس کے سامنے ہاتھ اْٹھائے اور پھر اللہ اس کے ہاتھوں میں خیر نہ ڈالے‘‘۔ (الحاکم)۔ چنانچہ اللہ حاجیوں کے اْٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتا۔ شیطان اس موقع پر ذلیل و رْسوا ہوتا ہے، بہت سٹپٹاتا ہے، کیونکہ پلک جھپکنے میں اس کی ساری کوششیں اکارت چلی گئیں۔
آپؐ نے فرمایا: ’’شیطان یومِ عرفہ سے زیادہ کسی بھی دن ذلیل و حقیر اور افسردہ و غضب ناک نہیں ہوتا، جب وہ اللہ کی رحمت کو اْترتے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف کرتے دیکھتا ہے‘‘۔ (موطا) نبیؐ نے عرفہ کے دن کی شام اپنی اْمت کی خاطر مغفرت و رحمت کی بہ کثرت دعا کی تو اللہ کی طرف سے فرمایا گیا: میں نے تمھاری اْمت کو معاف فرما دیا سواے ان کے جنھوں نے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کی۔ آپؐ نے عرض کیا: اے پروردگار! تو ظالم کو بخشنے اور مظلوم کو (اس پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے) زیادہ اجروثواب دینے پر قادر ہے۔ اگلے روز صبح آپؐ مزدلفہ کے مقام پر اْمت کی خاطر دعا کرتے رہے۔ پھر آپؐ کچھ دیر بعد مسکرائے۔کسی صحابیؓ نے کہا: آپ ایسے وقت مسکرائے جب کہ آپؐ اس موقع پر مسکرایا نہیں کرتے تھے۔ فرمایا: میں دشمنِ خدا ابلیس پر مسکرایا ہوں، جب اسے معلوم ہوا کہ اللہ نے میری اْمت کے حق میں، میری دعا قبول فرمالی ہے اور ظالم کو بخش دیا ہے، تو وہ تباہی و بربادی مانگنے لگا اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرایا ہوں۔ (مسنداحمد)
قیامت کے دن شیطان کی حالتِ زار کی منظرکشی رسالت مآب نے یوں فرمائی ہے: سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا۔ ابلیس کی ذْریت اس کے پیچھے ہوگی، وہ سب ہلاکت کو بلا رہے ہوں گے اور موت کو پکار رہے ہوں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا: آج ایک موت کو نہیں، بہت سی موتوں کو پکارو۔(مسند احمد)
حج کے مناسک مکمل کرنے کے بعد حاجی جب گھر پہنچے گا تو ازسرِنو، دشمن کے ساتھ مقابلہ شروع ہوگا۔ لہٰذا حاجی کے لیے لازمی ٹھہرا کہ وہ اپنے اس ازلی دشمن کی ظاہری و باطنی مداخلت گاہوں سے آگاہ ہوتاکہ مناسب اسلحہ اور تحفظ و دفاع کا انتظام کرسکے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ شیطان اس پر کہاں سے وار کرسکتا ہے؟ اس لیے کہ شیطان ہر انسان پر حملہ کرنے کے لیے اپنا موزوں طریقہ اپناتا ہے۔ وہ زاہد پر زْہد کے طریقے سے، عالم پر علم کے دروازے سے، اور جاہل پر جہالت کے راستے سے وار کرتا ہے اور یوں اپنے ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ شیطان کے چند ہتھکنڈے یہ ہیں:
٭مسلمانوں کے مابین تنازعہ اور بدگمانی: شیطان مسلمانوں کے مابین لڑائی جھگڑے اور فتنے پیدا کرتا ہے۔ وہ بدگمانی پھیلا کر بْغض، نفرت اور اختلاف پیدا کرتا ہے۔
٭بدعت کو خوش نما بنانا: وہ ’جدید عبادت‘ کے نام پر مسلمانوں کو اْکساتا ہے۔
٭تاخیر: وہ سنجیدہ اور بامقصد کام کرنے والوں کو تاخیرپر آمادہ کرتا ہے۔ نیکی کرنے والوں کو کہتا ہے کہ بعد میں کرلینا۔ وہ سستی، کاہلی اور تاخیر پر اْکساتا رہتا ہے۔
٭تکبر و غرور: یہ شیطان کی اپنی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا۔
٭تشکیک: شیطان نیکی کرنے والوں کو شک میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ نیکی ترک کر دیں۔
٭ڈرانا:شیطان اہلِ ایمان کو اپنے لشکروں، پیروکاروں اور ساتھیوں سے ڈراتا رہتا ہے۔ وہ صدقہ خیرات کرنے والوں کو ڈراتا ہے کہ تم نادار ہوجاؤ گے۔
٭باطل کو خوش نما بنانا:شیطان اس جال میں اولادِ آدم کو خواہشات کی پیروی سے پھانستا ہے۔
٭نظربازی: آپؐ نے فرمایا: نظر ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جس نے اسے اللہ کے خوف سے چھوڑا، اللہ اسے ایمان عطا فرمائے گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔ (الحاکم)
ایمان مغازی الشرقاوی/ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی