کراچی ( تجزیہ : محمد انور) کراچی میں بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی گندگی
غلاظت کو صاف کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے فوج اور دیگر وفاقی اداروں کو طلب کرنے کا مقصد اگرچہ شہر کے مفاد میں نظر آتا ہے مگر اس سے صوبے سے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کی شروعات کی بو بھی آرہی ہے۔ سیاسی حلقے حیران ہیں کہ وفاق نے ایک ایسے وقت میں صوبائی حکومت کی مدد کے بہانے کراچی میں فوج، نیشنل ڈسزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے ) اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن ( ایف ڈبلیو او ) کو طلب کرکے کیا واقعی صرف بارش سے ہونے والی گندگی کو صاف کرنا چاہتی ہے یا اس بہانے سے پوری پیپلز پارٹی کی سندھ گورنمنٹ کو صوبے سے صاف کرنا چاہتی ہے۔ وفاق کا یہ فیصلہ سندھ کی طرف پیش قدمی کے مساوی ہے جس کی صوبائی حکومت کی طرف مزاحمت یقینی ہوسکتی ہے لیکن اس مزاحمت کے نتیجے میں بھی صوبائی حکومت کو ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، لوگ حیران ہیں کہ وفاق نے کراچی میں صفائی ستھرائی کے لیے عین اس وقت وفاقی اداروں کی مدد حاصل کی ہے جب صوبائی حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے شہر کے ندی نالوں اور ڈرینج سسٹم کی صفائی اور انہیں بہتر بنانے کے پروجیکٹ پر عمل پیرا ہے۔ 150 ملین ڈالر کے اس منصوبے کے پہلے مرحلے کی اگرچہ ناکامی بارشوں کے بعد واضح ہوئی ہے مگر وفاق نے براہ راست اس پروجیکٹ پر اعتراض نہیں کیا لیکن خدشہ ہے کہ وفاقی اداروں کی طرف سے صفائی ستھرائی کے امور میں مداخلت سندھ حکومت صرف اس وجہ سے برداشت نہیں کرے گی کہ اسے جاری ورلڈ بینک کے پروجیکٹ میں مداخلت کا خدشہ ہوگا۔ دوسری طرف یہ بھی لگتا ہے کہ وفاق ایسا کرکے صوبے کو یہ بھی پیغام دینا چاہتا ہے کہ آئین میں18 ویں ترمیم کے باوجود صوبے کے بیشتر امور میں مداخلت کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے18 ویں ترمیم کے تحت کراچی کے3 بڑے اسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر( جے پی ایم سی )، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز ( این آئی سی وی ڈی ) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ ( این آئی سی ایچ ) کا کنٹرول دوبارہ وفاق کے سپرد کرنے پر ابھی تک مزاحمت کر رہی ہے لیکن دوسری طرف وفاق نے ان مراکز صحت کا کنٹرول ہر صورت میں حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ہی تنازعات سے وفاق صوبائی حکومت سے سخت نالاں ہے مگر تعلقات تو سندھ حکومت، وفاق سے خود بھی بہتر کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ وزیراعظم کی جانب سے کراچی کی صفائی ستھرائی سمیت مجموعی صورتحال کی بہتری کے لیے فوج، این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کی طلبی کو سیاسی حلقے غیر معمولی اقدام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل صوبائی امور کو کنٹرول کرتے ہوئے صوبے کی حکومت کو برخواست کرنے تک کے لیے کیا گیا ہے تاکہ آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لیے بھی سیاسی طاقت حاصل کی جاسکے۔ خیال رہے کہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو حکومت میں شریک متحدہ قومی موومنٹ کی نہ صرف مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ بتدریج سندھ حکومت پر کنٹرول کرنے کی تجویز متحدہ کے رکن و وفاقی وزیر فروغ نسیم نے ہی دی تھی۔ اگر یہ بات درست ہے تو پیپلز پارٹی کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ وہ جلد ہی سندھ سے رخصت ہونے والی ہے اگر ایسا نہیں ہوسکا تو عین ممکن ہے کہ صوبہ سندھ سے کراچی کو الگ کرکے وفاق کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔