سرینگر (اے پی پی) مقبوضہ کشمیر میںآر ایس ایس کی حمایت یافتہ نریندر مودی کی زیر قیادت فسطائی حکومت نے 5
اگست کے اقدام کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد مقبوضہ علاقے میں اپنے ہندوتوا ایجنڈے کی تکمیل کیلیے کشمیری مسلمانوں کو اہم عہدوں سے ہٹا کر ان کی جگہ ہندوئوں کو تعینات کر دیا ہے، سول بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ سمیت کہیںبھی کشمیری مسلمان موجود نہیں، ڈوگرہ راج نافذ ہونے کا خدشہ، وادی کی صرف ایک اہم پوسٹ کشمیری مسلمان کے پاس ہے جو کہ پرنسپل سیکرٹری اسکول ایجوکیشن اصغر حسن ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ پیشرفت 2 اپریل کو اس وقت منظر عام پر آئی جب وادی کشمیر میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی نام نہاد کشمیر انتظامیہ کے اجلاس کی ایک تصویر سامنے آئی، جس کا حوالہ بھارتی نیوز پورٹل کی ایک رپورٹ میں دیا گیا تھا۔ تصویر میں لیفٹینٹ گورنر جی سی مرمو کو بیوروکریٹس کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں صرف ایک کشمیری مسلمان فاروق احمد لون شامل تھے جن کا تعلق وادی کشمیر سے ہے۔ اسلام کشمیر کا سب سے بڑا مذہب ہے اور مقبوضہ علاقے کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ رپورٹ میں کشمیر کے ایک فیس بک یوزر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے سے متعلق فیصلہ سازی کیلیے منعقد کیے گئے اجلاس میں صرف ایک کشمیری مسلمان کو شامل کیا گیا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے آئین کی دفعہ 35 اے کو بھی منسوخ کردیا ہے جس میں مقبوضہ علاقے کی حکومت کو اراضی کی ملکیت اور سرکاری ملازمتوں کے حق سمیت جموں و کشمیر کے مستقل رہائشیوں کے حقوق کے تحفظ کا حق دیا گیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد بنیادی طور پر وادی کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور کشمیری عوام کو ان کے معاشی اور سیاسی حقوق سے محروم کرنا تھا۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد قانون ساز اسمبلی جسے تحلیل کردیا گیا ہے میں مسلمان قانون سازوں کو اکثریت حاصل تھی۔ 5 اگست کے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے بعد وادی کشمیر کے باشندوںکو دوبارہ ’’ڈوگرہ راج‘‘ نافذ ہونے کا خدشہ ہے جو کہ 1947ء سے پہلے مقبوضہ علاقے میں قائم تھا۔ رپورٹ میںکہاگیا ہے کہ یہ صرف تصویر نہیں ہے جس نے ان خدشات کو بڑھادیا ہے۔ رپورٹ میں سابق نام نہاد وزیر غلام حسن میر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سول بیوروکریسی، پولیس اور عدلیہ سمیت کہیںبھی کشمیری مسلمان موجود نہیں، انہیں ہٹادیاگیا ہے اور سسٹم مکمل طورپر عدم توازن کا شکار ہے۔ داخلہ، خزانہ، صحت، ماحولیات جیسے اہم محکموں کی سربراہی مقبوضہ کشمیر کے باہر سے لائے گئے افسروںکے پاس ہے۔ ادھر جموں و کشمیر پولیس فورس کی سربراہی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دل باغ سنگھ کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہلی سے تعلق رکھنے والے مکیش سنگھ جموں ڈویژن میں پولیس کے سربراہ ہیں اور بہار سے وجے کمار انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔ کشمیر کے 5 ڈپٹی انسپکٹر جنرلز میں سے بھی کسی کا تعلق کشمیر سے نہیں ہے۔ وادی کشمیر کے 13 پولیس ڈسٹرکٹس میں سے صرف 2 کی سربراہی کشمیری سپرنٹنڈنٹس کے پاس ہے۔ جموں و کشمیر ہائیکورٹ میں بھی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ججز اقلیت میں ہیں، موجودہ 11 ججوں میں سے صرف2 کشمیری مسلمان اور 2 کشمیری پنڈت ہیں۔
آر ایس ایس