ـ5اگست: کشمیر میں کرفیو کی سالگرہ اور رام مندر کا سنگِ بنیاد

543

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے تمام ہی پڑوسیوں سے شکست کھانے اور چین کے سامنے گردن جھکانے کے بعد رام مندر کا بندر نچانے فیض آباد کی بابری مسجد پہنچنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کے مطابق5 اگست کو ایودھیا میں ’’رام مندر‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ مودی کی شیطانیت اپنے عروج پر ہے اس نے ایودھیا میں رام کی جنم بھومی بنانے کے لیے 5اگست ہی کا دن کیوں منتخب کیا۔ یہ وہ دن ہے جب مودی حکومت نے 5اگست 2019ء کو کشمیر، لداخ، گلوان، ویلی دولت پور روڈ، نیپال اور دیگر متنازع علاقوں پر قبضہ جمانے کے لیے ’’آرٹیکل 370 اور 35 اے‘‘ کو ختم کر کے متنازع علاقوں کو مکمل طور سے بھارت میں شامل کر لیا اور کشمیر میں 5اگست 2019ء سے مکمل کرفیو، مارشل لا اور لاک ڈاؤن جاری ہے اور کشمیریوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایک سال کے ظلم و درندگی کے باوجود مودی حکومت کشمیریوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی اور پوری دنیا کے میڈیا کی یہی رپورٹ ہے کہ بھارت ’’تحریک آزادی ِ کشمیر‘‘ کو مٹانے یا دبانے میں یکسر ناکام رہا ہے اور عالمی میڈیا کے مطابق بھارت کشمیریوں کی ’’تحریک آزادی‘‘ کو مٹانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عین اسی دن 5اگست کو مودی حکومت نے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ دسمبر 1949ء کی ایک سرد صبح تھی مسلمان بابری مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ ’’فیض آباد‘‘ میں 465 سال پرانی ’’بابری مسجد‘‘ میں چند فسادیوں نے ’’رام بت‘‘ رکھ دیا ہے اور اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے یہ ’’رام بت از خود یہاں پہنچ گئے ہیں اور یہ جگہ رام کی جنم بھومی ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں رام کی پیدائش ہوئی تھی اور اس جگہ مسجد کے بجائے رام مندر بنایا جائے گا۔ اس کے بعد پورے بھارت میں ہنگامے شروع ہوگئے اور اس حالت کو دیکھ کر مقامی عدالت کے حکم پر مسجد کو بند کر دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کی آزادی کو صرف دو سال چار ماہ کا قلیل عرصہ گزرا تھا اور ملک میں ’’عالمی شہرت یافتہ سیکولر کانگریس‘‘ کے وزیر اعظم کی حکومت تھی اور دنیا میں بھارت کو ایک سیکولر ملک کے طور پر جانا اور پہنچانا جاتا تھا۔
یہ فساد دوبارہ 15 ستمبر 1992ء کو شروع ہوا، جب ایل کے ایڈوانی اور بال ٹھاکرے کی سربراہی میں ایک بڑا ہجوم تیار کرنے کے لیے پورے ملک سے غنڈوں کو جمع کیا گیا اور یہ سلسلہ 25ستمبر تک جاری رہا اور بابری مسجد کو سرکاری سرپرستی میں گھیر لیا گیا اور اس کو توڑنے کی تیاری شروع کر دی گئی۔ یہ سلسلہ 20اکتوبر 1992 تک جاری رہا اور 28 اور 29اکتوبر کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سرپرستی میں مسجد میں توڑ پھوڑ کا کام شروع کر دیا گیا اس موقع پر یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ 1992ء میں بھی بھارت میں کانگریس کی حکومت تھی اور پارٹی کے ایک انتہائی معتدل مزاج اور سیکولر ازم کا پرچار کرنے والے وزیر اعظم ’’نرسمہا راؤ‘‘ کی حکومت تھی لیکن وہ اس کھیل میں مکمل طور سے خاموش تھے اور اپنی سرپرستی اور نگرانی میں فسادیوں کو مسجد کی تباہی پر درپردہ پیٹھ ٹھوک رہے تھے۔ اس طرح 1949ء میں مسجد پر ابتدائی قبضہ اور 1992ء میں ’’بابری مسجد‘‘ توڑے جانے کے دوران بھارت میں سیکو لرازم کا راگ الاپنے والی کانگریس ملک کی حکمران تھی اور ہر طرح سے مسجد کو ختم کرنے میں کانگریس نے اپنا بھر پور کر دار ادا کیا۔
30ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ سنایا تو دنیا دنگ رہ گئی، بابری مسجد کی 5ایکڑ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا، مسجد کے درمیانی گنبد کا حصہ رام جنم بھومی بتاکر رام مندرکے لیے دیا، دوسرا حصہ ہندوؤں کے ایک دوسرے فریق نرموہی اکھاڑا کے لیے، تیسراحصہ سینٹر سنی وقف بورڈ کو مسجد کے لیے دے دیا، یعنی بڑی خوبصورتی سے مسلمانوں سے مسجد کی زمین چھین کر مندر میں تبدیل کردی گئی۔
اس کے بعد بھارتی عدالت عظمیٰ نے ایک اور کمال کیا۔ اس نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ: ’’رام مندر کی تاریخ 7لاکھ سال پرانی ہے‘‘۔ سات لاکھ سال پہلے رام اپنی جنم بھومی میں پیدا ہوئے اور اس کے بعد سے یہاں مقیم ہیں لیکن اصل صورتحال اس وقت سامنے آئی جب ہندوؤں میں سے ایسے محقق جو سیکو لرازم پر یقین رکھتے ہیں اور عصبیت کا دبیز پردہ بھی ان کے دماغوں پر چڑھا ہوا نہیں ہے، وہ یہی بولتے ہیں کہ ایودھیا کو رام کی نگری کہنا، اسے رام جنم استھان بتانا، اور بابری مسجدکے بارے میں یہ کہنا کہ شاہ بابر نے مندر توڑ کر بابری مسجد بنائی تھی انتہائی مضحکہ خیز ہے، چنانچہ 1984ء میں ڈاکٹر آر۔ ایل شکلا استاد دہلی یورنیورسٹی نے ایک مقالہ بعنوان ’’رام کی نگری اور ایودھیا جھوٹ یاسچ‘‘ لکھا تھا، جس کو بعد میں ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا، اس مقالے میں ڈاکٹرآر۔ ایل شکلا لکھتے ہیں کہ ’’بعض مورخین مہا بھارت میں بیان کیے گئے رام کو حقیقی کردار مانتے ہیں، یہ مورخین رام کا زمانہ ڈھائی ہزارسال قبل مسیح مانتے ہیں، اور مہا بھارت کا زمانہ سیدنا عیسیٰ سے ایک ہزار سال پہلے کا بتایا جاتا ہے۔ اگر ہم اس تحقیق کو صحیح مان لیں تو رامائن میں جن مقامات کا تعلق رام جی سے بیان کیا گیا ہے ان جگہوں میں سیدنا عیسیٰ سے ڈھائی ہزار سال پہلے انسانی زندگی کے آثار ملنے چاہئیں، اسی مقصدکے پیش نظر تین مقامات کی کھدائی ہوئی، فیض آباد ضلع میں ’’ایودھیا‘‘ کی۔ الہ آباد سے 35کیلو میٹر شمال کی سمت موضع ’’شرنگو پریوار‘‘ کی۔ الہ آباد میں واقع ’’ھاردواج‘‘ آشرم کی۔ ایودھیا میں کھدائی آج سے تقریباً 25 سال پہلے بھی ہوئی تھی۔ اس وقت بھی وہاں آبادی کے نشان سیدنا عیسیٰ سے 600 سال پہلے کے نہیں ملے تھے، اور اب سے تقریباً دس سال پہلے دوبارہ بڑے پیمانے پر وہاں (ایودھیا) میں کھدائی ہوئی تھی، اس کھدائی سے بھی آبادی کے متعلق وہی نتیجہ نکلا، کہ سیدنا عیسیٰ سے زیادہ سے زیادہ 700سال قبل کی آبادی کے نشان پائے گئے۔ اب اگر یہ مان لیا جائے کہ یہی موجودہ ایودھیا رام جی کی نگری تھی جو ان کی جنم بھومی مانی جاتی ہے تو (سوال پیدا ہوتا ہے) کہ رام جی کے زمانہ سے ایودھیا کے زمانہ کا جوڑ کیوں نہیں قائم ہوتا؟ اجودھیاکی آبادی سیدنا عیسیٰ کے زمانہ سے 600یا 700 سال پہلے کی ہے، جبکہ رام کا زمانہ سیدنا عیسیٰ سے 2500سال قبل یا بعض مورخین کی تحقیق کے اعتبار سے اس سے پہلے کا ہے، تو پھر ایودھیا رام کی جنم بھومی کیسے ہوسکتی ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے؟ اس دلیل کے بعد بھارتی عدالت عظمیٰ کو 7لاکھ سال پرانی ’’ایودھیا رام کی جنم بھومی‘‘ کا سراغ مل گیا اور اس نے مودی کو ایودھیا رام کی جنم بھومی بنانے کی اجازت دے دی۔
اسی طرح کی ایک کہانی بھارت نے ’’کیلاش‘‘ کے پہاڑوں کے لیے بھی بنائی ہوئی ہے جس کی مدد سے مودی حکومت نیپال پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ر ہی ہے۔ بھارتی حکومت کا کہنا کہ! ’’کیلاش کے پہاڑوں میں ہندوؤں کے دیوتا شیوا جی اپنی بیوی پاروتی اور اپنے دو بیٹوں کے ساتھ رہتے ہیں جن کی پوجا کرنے کے لیے بھارت سے بڑی تعداد میں ہندو کیلاش کے پہاڑوں میں دیوتا ’’شیوا جی‘‘ ان کی بیوی پاروتی اور ان کے دو بیٹوں کی پوجا کے لیے جاتے ہیں نیپالی حکومت نے پتا لگایا کہ پجاریوں کے روپ میں بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسی کے افراد بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان پہاڑوں پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ جس کے بعد نیپالی حکومت نے بھارتی سرحد پر اپنی فوج کھڑی کر دی۔ اس کے بعد نیپالی حکومت نے اپنا الگ نقشہ اپنی اسمبلی سے منظور کراکر ’’گوگل‘‘ کو بھیج دیا ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب بھارت پاکستان سمیت اپنی تمام سرحدوں پر بھرپور شکست سے دوچار ہے رام مندر بنانے میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس سے مودی حکومت یہ ثابت کررہی ہے کہ وہ کشمیریوں پر مظالم میں مزید اضافہ کرنے والی ہے۔ اور اپنے عوام کو یہ بتانا ہے کہ چین سے شکست کے باوجود بھارت ایک طاقتور ملک ہے۔
5اگست 2020ء کی اس تقریب کا سب سے اہم پہلو یہ ہے اس تقریب میں ابتدائی طور پر ایل کے ایڈوانی اور مرلی منہور جوشی جو 1992ء میں بابری مسجد کو شہید کرنے والے فسادیوں کے سربراہ تھے کو شرکت کی دعوت ہی نہیں دی لیکن بعد میں ٹیلی فون پر ان کو دعوت مل گئی ہے۔ 1992ء کے ایک اور اہم کردار اور اس کے اپنے دعوؤں کے مطابق 1992ء کے فسادات کے دوران 1000 سے زائد مسلمانوں کو اس نے قتل کیا جی بال ٹھاکرے کی بات کر رہا ہوں کے بیٹے اُودے ٹھاکرے جو اس وقت مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ہیں اور ان کے بھائی راج ٹھاکرے کو سرے سے بلایا ہی نہیں گیا اس کی وجہ ان دونوں کی مودی سے کشیدگی بتائی جارہی ہے، کانگریس بھارت کے صدر اس تقریب کو ملک کے لیے تباہی بتارہے ہیں۔
اس تقریب پر بھارتی میڈیا بہت خوش ہے “india to day” کاکہنا ہے کہ: مودی رام ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھ کر دراصل 5اگست 2019 کے اس فیصلے پر پکی مہر لگا رہے ہیں جس میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کو بھارتی آئین سے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زی ٹی وی اور دیگر نے 5اگست کو بھارت کا اصل ’’یوم آزادی‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اس تقریب کا اصل مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ مودی چین سے اپنی شکست کو بھارتیوں سے چھپانے کے لیے اپنا منہ ریت میں دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان میں ان سب باتوں سے ایک الگ دنیا بسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آئی ایس پی آر نے کشمیر میں 5اگست 2019ء سے مکمل کرفیو، مارشل لا اور لاک ڈاؤن کشمیریوں کے قتل عام کے حوالے سے ایک ترانہ بنایا ہے جس کو ریلیز کردیا گیا ہے۔ اس ترانے میں بھارت سے کشمیری بچے بڑے اور بوڑھے، جوانوں کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ ’’بھارت تم کشمیر سے چلے جاو‘‘ اس کے علاوہ اور بھی اس حوالے سے مذمت در مذمت سامنے آتی رہے گی لیکن مذمت اور ترانے سے کشمیر کی آزادی ممکن نہیں کشمیر کیا دنیا کے کسی بھی خطہ کو آزاد کرانے کے لیے مذمت اور ترانوں کی نہیں ’’تلوار‘‘ کی ضرورت ہو تی ہے ’’قربانی کی بانہوں میں ملتی ہے آزادی‘‘۔