سیاسی رنگروٹ

285

سابق صدر آصف علی زرداری کے فرزند ارجمند، بے نظیر بھٹو کے جگر گوشے بلاول زرداری خود کو بلاول بھٹو کہیں یا بلاول زرداری بھٹو لکھیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس معاملے میں بحث کرنا کج بحثی کی بد ترین مثال ہے۔ ایک دوست کی بہن کو طلاق ہوگئی لڑکی ایک بچہ کی ماں تھی۔ اس نے اپنے بی فارم میں بچے کا نام لکھوانا چاہا تو کلرک بادشاہ نے صاف جواب دے دیا۔ انہوں نے اس معاملے میں ہم سے مدد چاہی ہم شناختی کارڈ کے دفتر گئے جو اب نادرا کہلاتا ہے اور نادرا بیگم ہی کی طرح نخرے کرتا ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر کلرک بادشاہ جو اصل بادشاہ سے بھی زیادہ خالص ہوتا ہے اپنی ضد پر اڑا رہا اور پھر ہماری ضد اور اس کی ضد اپنی بڑھی کہ تکرار کی صورت اختیار کرگئی۔ لوگ اپنا کام چھوڑ چھاڑ کر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ ڈائریکٹر صاحب بھی اپنے آفس سے نکل آئے اور تکرار کی وجہ پوچھی۔ اصل صورت حال علم میں آئی تو کہا بچے کا نام ماں کے بی فارم میں درج کردو۔ ضرورت مندوں کو ناجائز تنگ مت کیا کرو۔ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی۔ ہاں تو ہم بلاول زرداری کی بات کررہے تھے۔ وہ ابھی سیاست میں رنگروٹ ہیں اور رنگروٹ کو اپنے سینئر کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ ان کو ساری زندگی سیاست ہی کرنا ہے۔ اس لیے سیاسی دائرے میں رہا کریں۔ دوسرے کے شجرہ نسب تک پہنچیں گے تو لوگ ان کا شجرہ نسب بھی کھنگال ڈالیں گے۔ ویسے ہم کاغذ پر لکھے شجرہ نسب سے زیادہ چہرہ پر درج شجرہ نسب کو مانتے ہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرتے کہ بعض لوگوں کے چہروں پر چسپاں حسب حال نہیں ہوتا۔ یوں ہی ذاتیات پر حملہ کرنا ذہنیت کو مشکوک کردیتا ہے۔ ذہنی پرا گندگی ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ مگر ذہنیت بگڑ جائے تو کئی نسلیں بگڑ جاتی ہیں بلاول زرداری کو علم ہوگا کہ جب سیاسی مخالفین نے ان کی نانی اور والدہ کو بد نام کرنے کے لیے اخلاق کی ساری حدیں عبور کرلی تھیں تو ہم نے اس رویے کی شدید مخالفت کی تھی اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں ذاتی مخالفت میں بہن، بیٹی کی کردار کشی کرنا ایک ایسی گٹھیا حرکت ہے جس کی مذمت کار ثواب ہے۔ مگر نقار خانے میں توتی کی آواز کون سنتا ہے ہماری باتوں کو بھی مذاق بنا لیا گیا۔
بھارت ہمارا پیدائشی دشمن ہے مگر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اخلاقی طور پر ہم سے بہت بہتر ہے۔ مشرقی رسم و رواج اور آداب کو شازو نادر ہی نظر انداز کرتا ہے۔ جب کہ ہم لوگ انا کی خود ساختہ دیوار پر چڑھ کر خود کو سر بلند سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک مرتبہ اندرا گاندھی کے مخالفین نے سونیا گاندھی کو بہت برا بھلا کہا اور یہ الزام بھی لگایا کہ ہم نے اپنے لڑکے کو تعلیم کے لیے بھیجا تھا مگر اس نے اپنے نازو ادا سے اسے اپنی جانب راغب کرلیا اور پھر ایسا جادو چلایا کہ ہمارا لڑکا اس کا بے دام غلام بن گیا۔ اور یہ سارا دھندا اس لیے کیا گیا کہ سونیا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بن کر ہم پر حکمرانی کرنے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ مگر یہ ممکن نہیں کیونکہ بھارتی جنتا کسی غیر ملکی کو اپنا وزیراعظم نہیں بنا سکتی۔ ہم نے بہت نرم لفظوں میں ان کی ذہنیت کا اظہار کیا ہے مگر بھارتی سیاست دانوں اور دانش ورں نے ایسے لتے لیے کہ انہیں جوتے چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور ہاتھ جوڑ کر بھارتی جنتا اور رہنمائوں سے معافی مانگنا پڑی تب کہیں جاکر انہوں نے اپنے گھروں سے نکلنے کی ہمت کی۔ اور ہم لوگ جسے چاہیں غدار قرار دے ڈالیں جسے چاہیں دشمن کا آلہ کار قرا ر دے دیں۔ دہشت گرد اور دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دینا تو معمول کی بات ہے۔ کمینگی کی انتہا یہ ہے کہ مرحومین کو بھی نہیں بخشتے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ شاید دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے اسے اپنی ٹانگ ٹوٹنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ کاش عدالت عظمیٰ یہ تسلیم کرلے کہ جب تک وہ متحرک اور فعال نہیں ہوگی ملک کے تمام ادارے سست اور بے فیض رہیں گے۔ کسی ملک کی کامیابی اور طرز حکمرانی کا استفادہ عوام کو اسی وقت حاصل ہوتا ہے۔ جب عدلیہ اپنی ذمے داری دیانت داری سے انجام دے رہی ہو۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ہاں عدلیہ کی کارکردگی کے بجائے حاضری پر توجہ دی جاتی ہے۔ کون جج کب آیا کب گیا۔ دیر سے کیوں آیا جلدی کیوں گیا حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جج اور جسٹس صاحبان کی کارکردگی دیکھی جائے کہ انہوں نے کتنے مقدمات کی سماعت کی اور کتنے مقدمات کے فیصلے سنائے، کتنی پیشیاں دیں اور کتنی دیر سماعت کی اور کتنی دیر اپنے چیمبر میں بیٹھ کر گپ شپ لگائی۔ نیب اور عدالت عظمیٰ ایک پیچ سے اتر آئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کس کے پیچ کسے جاتے ہیں اور کس کس کے پیچ ڈھیلے کیے جاتے ہیں۔ ویسے امید ہے کہ جب تک عمران خان وزیر اعظم ہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گئے اور نیب بھی اپنی سرکاری ڈیوٹی دیانت داری سے انجام دیتی رہی گی۔