گزشتہ سال 5 اگست کی بات ہے جب انڈیا نے آرٹیکل 370 اور 35-A کے خاتمے کے بعد کشمیر کی وادی میں کرفیو لگادیا تھا، لاکھوں بھارتی فوجی تو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کی گلی کوچوں میں موجود تھے۔ اب اُن کی تعداد میں مزید دو لاکھ کا اضافہ کردیا گیا تھا۔ یہ ایک غیر قانونی طریقہ کار تھا جس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی وفاق میں ضم کرکے خطے کی آئینی خود مختاری کو ختم کردیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ساری کشمیری لیڈر شپ کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا یا انہیں نظر بند کردیا گیا۔ ان کی سرگرمیوں پر قدغن لگادی گئی۔
آج ایک سال گزر جانے کے بعد بھی کشمیر میں عام زندگی معطل ہے۔ کشمیر کی وادی میں ہولناک خاموشی طاری ہے۔ کورونا وائرس کے بعد لاک ڈائون بھی نافذ کردیا گیا۔ اس صورت حال میں گرفتار ہونے والے کشمیریوں کے اہل خانہ پریشان ہیں۔ یوسف گنائی اُن ہزاروں کشمیریوں میں سے ایک ہیں جن کو پچھلے ایک سال میں گرفتار کیا گیا۔ پورا سال روز خاندان کے لوگ تھانے جاتے اور انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیا جاتا کہ شام تک انہیں رہا کردیا جائے گا اور پھر ایک دن کہا گیا کہ انہیں بھارت کے صوبے اتر پردیش منتقل کردیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں جب کشمیر کے چپے چپے پر پولیس اور سیکورٹی فورسز کے پہرے لگے ہیں، بھلا کیسے خاندان کے لوگ ملاقات کے لیے کشمیر کے باہر کا سفر کرسکتے ہیں۔ یوں یوسف گنائی کی والدہ، بیوی اور بچے ان سے نہ مل سکے۔ آج روزگار بند، دکانیں بند، کمانے والے نوجوان بچوں کو کشمیر اور اس کے باہر جیلوں میں ڈال کر کشمیری خاندانوں پر مزید ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک ہے کہ انڈیا کی حکومت نے پچھلے ایک سال کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے شمار قوانین نافذ کردیے ہیں۔ ان میں غیر مقامی افراد کو شہریت دینے، فوج کو کہیں بھی تعمیرات کے لیے بلا روک ٹوک اجازت، ریاست کی ملازمتوں کے لیے پورے بھارت کے امیدواروں کو اہل قرار دینے، جائداد خریدنے اور رہنے بسنے، کاروبار کرنے کی اجازت دینے سے متعلق ہیں۔ اس طرح کشمیر کی آبادی اور جغرافیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کشمیر میں مظاہرے اور احتجاج نہیں ہوا تو یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی پرندے کے پر کاٹ کر یہ کہا جائے کہ یہ تو اُڑتا ہی نہیں۔ مزید سختی مقبوضہ کشمیر میں چار اور پانچ اگست کو آرٹیکل 370 کی برسی پر ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر کی گئی ہے۔ جب انتہائی سخت کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔
پاکستان اور مقبوضہ کشمیر دونوں جگہ اس دن کو یوم استحصال اور یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا ہے۔ آج کشمیر میں ہر طرف خوف و ہراس اور سناٹے کا راج ہے۔ سڑکوں پر خاردار تار ہیں، ہر گلی اور سڑک فوجی بوٹوں کی دھمک سے گونج رہی ہے۔ فون موبائل اور انٹرنیٹ اب بھی بند ہے۔ لیکن اس تمام سختی کے باوجود بھارت صورت حال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ بھارت کے دانش وروں کی رائے یہ ہے کہ آرٹیکل 370 پہلے سے بھولا بسرا تھا لیکن پچھلے ایک سال سے اس کو کشمیریوں کو خوب اچھی طرح یاد کرادیا گیا ہے۔ بلکہ دلوں میں بسا دیا گیا ہے۔ جس چیز کے لیے بھارت نے کشمیریوں پر برسوں کام کیا یعنی علیحدگی پسند سوچ کا خاتمہ، اب پچھلے ایک سال کے دوران یہ سوچ ہر کشمیری کے دل کی آواز بن گئی ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے نے بھارت نواز سیاست دانوں کو بند گلی میں کھڑا کردیا ہے۔ پہلے آرٹیکل 370 ایک کتابوں میں تحریر تھی اب وہ ایک باقاعدہ نظریہ بن گیا ہے۔ ایک ایسا نظریہ جس پر ہر ایک کشمیری اپنا ایمان رکھتا ہے یہ بھارت سے آزادی کے حصول کا نظریہ ہے۔
دنیا میں ایسے ظالمانہ اقدام کی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے سربیا کی ملوزوک حکومت نے کوسوو کی آزاد حیثیت ختم کرکے اسے ایک پولیس ریاست بنادیا تھا۔ لیکن انہیں بالآخر کوسوو کو آزادی دینی پڑی۔ کشمیر میں بھی ہندو قوم پرستوں نے جموں و مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنے لحاظ سے ہندو شہری بنانا چاہا۔ جس کو جموں و کشمیر کے شہریوں نے مسترد کردیا ہے اور صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔ کشمیر میں مظالم کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا گیا۔ بھارتی فوجیوں نے سیدھی سینے، چہرے، گردنوں اور سروں پر فائرنگ کی، ہزاروں نوجوانوں اور خواتین کو اندھا کیا گیا ان میں پچاسیوں ایسے تھے جن کی دونوں آنکھیں پیلٹ گن سے ضائع کی گئیں۔ ان میں بچے بھی شامل تھے، بعض بچے تو بہت ہی چھوٹے تھے یعنی سال یا ڈیڑھ سال کے۔
بچوں کو مشق ستم بنانے کا خیال بھارتی فوجیوں نے اسرائیلیوں سے لیا ہے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر ننھے بچوں اور لڑکوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جیلوں میں قید کردیا جاتا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران بھارتی پولیس نے بھی اسی طریقہ کار کے تحت بچوں کو گرفتار کرنا شروع کیا۔ اُن کے سینوں پر بندوق رکھ کر پوچھا جاتا کہ بتائو پتھرائو کرنے والے کون ہیں؟ اُن کے نام کیا ہیں؟ پچھلے دنوں ایک کشمیری بچے کے سامنے اس کے دادا کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ پھر انہی کے سینے پر بچے کو بٹھا کر تصویریں لی گئیں۔ یہ ہراساں اور دہشت زدہ کرنے کی ٹیکنیک ہیں۔ جو اسرائیل سے سیکھی گئی ہیں۔ لیکن بھارت کو اس سکھائی چڑھائی کا فائدہ نہیں ہوگا۔ جو سبق سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ فلسطینی اسرائیلی مظالم کے سامنے اُسی طرح بہادری سے کھڑے ہیں اور اسرائیل مغرب کی پشت پناہی اور تمام تر ہتھیار اور ٹیکنالوجی کے باوجود خوفزدہ رہتا ہے کہ کب کیا ہوجائے؟۔ ظالم ہمیشہ خوف میں ہی رہتا ہے۔ یوں بھی بھارت میں خالصتان، آسام، ناگا لینڈ، منی پور وغیرہ کے علاوہ 15 کے قریب آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یقینا بھارت خوف زدہ ہے۔ اسی خوف کے باعث اس نے آرٹیکل 370 منسوخ کیا تھا لیکن اس آرٹیکل کی منسوخی نے سارے کشمیریوں کو ایک نکتہ پر متفق کردیا ہے۔