اطہر علی ہاشمی صاحب جمعرات کو سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ وہ بیمار تھے مگر اپنے آپ کو مریض ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ وہ طالب محبت تھے وہ بہت ہمدرد ہی نہیں ایک مکمل اور مثالی انسان تھے جن کا اخلاق سنت رسولؐ کے مطابق تھا وہ اپنے جونیئر، سینئر اور بچوں سے محبت، شفقت اور بھر پور اپنائیت سے ملا کرتے تھے۔ وہ غرور سے پاک شخصیت کے مالک تھے۔ ہاشمی صاحب کے انتقال سے صحافت کا ایک باب تو ختم ہوا مگر سب سے زیادہ نقصان روزنامہ جسارت کا ہوا جس کے وہ چیف ایڈیٹر تھے۔ اطہر ہاشمی صاحب نے اگرچہ کم و بیش 45 سال صحافت کے محاذ پر مجاہدانہ کردار ادا کیا لیکن انہوں نے دو مراحل میں جسارت کی تقریباً 30 سال خدمت کی وہ اردو نیوز جدہ میں بھی رہے اور روزنامہ امت سے بھی وابستہ رہے۔ مگر جسارت ان کی اور وہ جسارت کی شناخت بن گئے تھے۔
سب ہی اس بات سے واقف ہیں کہ روزنامہ جسارت ایک نظریاتی اخبار ہے مگر ایک نظریاتی اخبار کو ’’آزاد صحافت‘‘ کا علم بردار بنانے میں محترم اطہر علی ہاشمی کا بڑا کردار رہا۔ وہ اس لحاظ سے بھی منفرد مزاج کی شخصیت تھے کہ ہر مزاج کے لوگوں میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے، کراچی کے کم و بیش 15 ہزار صحافی ہاشمی صاحب کی شخصیت کے مداح تھے۔ وہ روزنامہ جسارت میں سب ہی یعنی صحافتی ہی نہیں غیر صحافتی عملے میں بھی مقبول اور قابل احترام مانے جاتے تھے جس کی وجہ ان کا ہر ایک کے ساتھ بہترین اخلاق سے پیش آنا تھا۔ یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہاشمی صاحب اپنی ذاتی میں ایک سماجی کارکن بھی تھے۔ مجھے جسارت کے ایک سابق ڈرائیور نے بتایا تھا کہ اس کی بیٹی کی شادی کے موقع پر انہوں نے فوری جہیز کا انتظام کرایا تھا۔ ہاشمی صاحب ایک بڑا حلقہ احباب رکھتے تھے، اس حلقے کو وہ انسانیت کی بلا تفریق مدد کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ وہ بڑے صحافی، کالم نویس اور دانشور تھے مگر مجھ جیسے ’’معمولی‘‘ فرد سے بھی وہ بہت پیار کرتے تھے، میں جب ایک انٹرنیشنل میڈیا سے وابستہ تھا تو بغیر اطلاع کیمرہ مین و اسسٹنٹ کو ساتھ لیے ان کے گھر انٹرویو کے لیے پہنچ جایا کرتا تھا مگر کبھی بھی انہوں نے اس بات کا برا نہیں منایا کہ میں بغیر وقت لیے ان کے گھر پہنچ گیا۔ بلکہ وہ خوش اخلاقی سے ہمارا استقبال کرتے اور مسکراتے ہوئے کہتے کہ ’’ابھی چائے وائے پی لو پھر کرلیں گے ٹی وی بات بھی، ویسے کس موضوع پر آج بات کرنی ہے‘‘۔ اطہر ہاشمی صاحب چونکہ اردو نیوز جدہ میں بھی اہم ذمے داری نبھا چکے اس لیے وہ بلا شبہ ایک بین الاقوامی صحافی تھے۔
آج ہاشمی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے تو مجھ سمیت کئی صحافی دوست جسارت کے مستقبل کے بارے میں بھی فکر مند ہوگئے۔ اس لیے کہ وہ ایک نظریاتی اخبار کے مدیر اعلیٰ ہونے کے باوجود غیر متنازع شخصیت تھے بلکہ اخبار کو غیر متنازع اور آزاد پالیسی والا اخبار بنانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں، این جی اووز اور شخصیات کو کوریج دینے پر یقین رکھتے تھے اور کسی بھی ادارے کے بارے میں خلاف یا حمایت میں خبر لگانے میں بھی یقین رکھتے تھے وہ صرف مصدقہ خبروں پر یقین رکھتے تھے۔ روزنامہ جسارت کو آج بھی معاشرے میں جو سچے اور معتبر اخبار کا مقام حاصل ہے اس کے لیے بلاشبہ ہاشمی صاحب کا بڑا کردار ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں کی سرزنش بھی سب کے سامنے نہیں کرنا چاہتے تھے وہ ماتحت افراد اور اپنے ساتھیوں سے بھی طنزیہ گفتگو نہیں کیا کرتے تھے اور ایسی گفتگو کرنے والے کو علیحدگی میں سمجھایا بھی کرتے تھے۔ یہ بات بھی شاید بہت کم لوگ جانتے تھے کہ ایک مضبوط انسان ہونے کے باوجود وہ اپنی اہلیہ ڈاکٹر نیلوفر ہاشمی جو خود ایک ڈاکٹر اور ڈائو میڈیکل کالج کی لیکچرار اور خواتین کی ایک این جی او بھی چلایا کرتی تھیں کی اچانک بیماری کی وجہ سے بہت پریشان ہوگئے تھے اور تب ہی سے بہت فکر مند رہا کرتے تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہاشمی صاحب کی اہلیہ، تینوں بیٹوں احمد حماد ہاشمی، محمد فواد ہاشمی، مصطفی صارم ہاشمی اور دیگر کو یہ صدمہ عظیم برداشت کرنے کی ہمت عطا کرے اور بیوہ کو جلد سے جلد مکمل صحت یاب کرے۔ آمین